URDU ESSAY TO ALL U.G. STUDENTS OF C.ABDUL HAKEEM COLLEGE


سیر پہلے درویش کی‘ کا خلاصہ
’’
باغ وبہار‘‘ میرامن کی ایک مایۂ ناز تصنیف ہے اور یہ ایک ایسی دلکش داستان ہے جو کہ قدیم ایرانی تہذیب وتمدن، بودوباش اور خیالات و افکار کی ترجمان ہے۔ یہ دراصل فارسی کے ایک بے حد مقبول قصے ’’چہاردرویش‘‘ کا آزاد اردو ترجمہ ہے۔ اس میں ایک بادشاہ اور چاردرویشوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ جنھیں تمہید اور خاتمے کے ذریعہ آپ میں جوڑ دیاگیاہے۔ اس طرح کہاجاسکتاہے کہ یہ ایک داستان نہیں بلکہ پانچ کہانیوں کامجموعہ ہے۔ ’’باغ وبہار‘‘ آسان، سادہ اور عام فہم زبان کا پہلانمونہ ہے اور جدید اردو نثر کی بنیاد اس کی اسلوب پر رکھی گئی ہے۔ اردو میں اگرچہ بہت سی داستانیں لکھی گئیں اور اپنے زمانے میں مقبول بھی ہوئیں لیکن شہرتِ دوام ان میں سے صرف میرامن کی ’’باغ و بہار‘‘ کو حاصل ہوئی۔
میرا من نے’’باغ و بہار‘‘ میں چادرویشوں کی کہانی خود انہیں کی زبانی بیان کی ہے۔ پہلے درویش نے دوزانو ہوکر نہایت شائستہ انداز میں اپنا ماجرااس طرح بیان کیاکہ اس کی پیدائش ملکِ یمن میں ہوئی۔ اس کے والد خواجہ احمد ایک بہت بڑے تاجر تھے اور ان کی تجارت کی شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ملک بھی میں کوئی ان کے برابر نہ تھا۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ اس کی ایک بہن تھی جس کی شادی ایک تاجر سے ہوچکی تھی اور وہ اپنے سسرال میں رہتی تھی۔ درویش نے ماں باپ کے سایہ میں بڑے لارڈوپیار سے پرورش پائی اور مختلف قسم کے علوم و فنون حاصل کئے۔ چودہ برس تک اس نے زندگی اس خوشی اور بے فکری میں گزاری کہ تکلیف اور دکھ درد کاواہمہ بھی اس کے دل میں نہ آیا۔ اچانک اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور ایک ہی سال میں اس کے ماں باپ دونوں کاانتقال ہوگیا۔ اس مصبیت ناگہانی سے وہ دن رات رویاکرتاتھا۔ اس کے دوست احباب اور خاندان کے بزرگوں نے سمجھابجھاکراسے اپنی ذمہ داری کااحساس دلایا اور اپنے باپ کی تجارت سنبھالنے کی طرف توجہ دلائی۔ جب اس درویش کی نگاہ اپنے باپ کی کمائی ہوئی دولت پڑی تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس بے انتہا دولت کی خبر جیسے ہی اس شہر کے غنڈوں اور بدمعاشوں کو ہوئی تو وہ اس کے قریب آکر جمع ہوگئے اور اس کی جھوٹی خوش آمد کرکے دن رات اس کی صحبت میں رہنے لگے اور اسے ناچ گانا، شراب اور جوے کاعادی بنادیا۔ وہ اس بری لت میں ایسا پھنساکہ اسے اپنے تجارت کی مطلق پروانہ رہی۔ اس کے نوکروں نے جب اس کی یہ غفلت دیکھ تو اس کی دولت کو لُوٹنا شروع کردیا اور جو کچھ جس کے ہاتھ لگا، لے کر چلتا بنا اور اس کے باپ کی جمع شدہ دولت پوری ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ درویش چندبرسوں میں نانِ شبینہ کامحتاج بن گیا۔ وہ بدمعاش اور غنڈے جو رات دن اس کی دوستی کادم بھرتے تھے اور اس پر جان نچھاور کرنے کے بہانہ کرتے تھے، ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے اور اگرکہیں اتفاقاً راستہ میں ملاقات ہوجاتی توآنکھیں چُراکرمنہ پھیرلیتے۔ اس سرزمین میں اس کاکوئی پرسانِ حال نہ رہا۔
جب فاقہ پر فاقہ کی نوبت آگئی اور بھوک کی تاب نہ لاسکاتو اس نے اپنی بہن کے پاس جاکر رہنے کاارادہ کیا مگریہ شرم دامن گیر تھی کہ والدین کے انتقال کے بعد اس نے بہن کی کوئی خبرنہ لی تھی اور پوری دولت اور جائیداد پر قبصہ کرلیاتھا لیکن اس گھر کے سوا اور کوئی ٹھکانہ اُسے نظر نہ آیا۔ چنانچہ وہ پاپیادہ روانہ ہوا اور تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتاہوااپنی بہن کے مکان پر پہنچا۔ بہن نے جب اپنے بھائی کو اس خستہ حالت میں دیکھا تو بے اختیار اس کی آنکھیں سے آنسوٗ جاری ہوگئے۔ اس نے اس کے صدقے اتارے اور گلے مل کر بہت روئی۔جلدی سے اس نے اس کے نہانے دھونے کاانتظام کیااور عمدہ پوشاک پہننے کو دئے۔ اپنے قریب میں ایک پرتکلف مکان رہنے کودیااور مختلف قسم کے مزیدار کھانے اور لوازمِ شاہانہ تیارکرکے اپنے روبروپیش کرجاتی۔ غرض بہن نے اس کی ایسی خاطر ومدارات کی کہ درویش اپنی ساری پچھلی تکلیفیں بھول گیا۔ کئی مہینے اسی آرام و راحت کے نقشے میں گزرگئے۔
ایک دن بہن نے اسے سمجھاتے ہوئے نہایت شائستہ اندازمیں کہا کہ اس کے یہاں آنے سے اتنی خوشی حاصل ہوئی ہے جو بیان سے باہر ہے اور وہ یہ ہرگز نہیں چاہتی ہے کہ اپنی نظروں سے اُسے دور رکھے لیکن کوئی بھی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مرد گھرمیں نکھٹو بن کر بیٹھا رہے۔ اس لئے کہ خدا نے مردوں کو کمانے کے لئے بنایاہے۔ بغیر کچھ محنت کئے گھر میں بیٹھے رہنا اسے زیب نہیں دیتا اور اس طرح بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتے رہنے سے دنیا والے طعن وتشنیع کریں گے کہ باپ کی دولت کھوکربہنوئی کے ٹکڑوں پر آپڑاہے۔ آخر میں بہن نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ کوئی تجارت شروع کرے شاید اس کی وجہ سے اس کی قسمت سنورجائے اور مفلسی خوش حالی سے بدل جائے۔ بہن کی اس نصیحت کا درویش کے دل پر بڑااچھااثرہوا اور اس نے تجارت کرنے پر اپنی آمادگی ظاہر کی۔ بہن نے ایک بڑی بھاری رقم اس کو دی تاکہ سامانِ تجارت خرید کر دمشق کو جانے والے تجارتی قافلہ کے حوالہ کر کے پکی دستاویز لکھوالے اور خود بھی دمشق جانے کاارادہ کرے۔ اس کے علاوہ اس کے سفر کے لئے ایک تیز رفتار گھوڑامع سازوسامان کے اُسے دیا اور کھانے پینے کی ساری چیزیں اس کے ساتھ لگادیں اور دعاؤں کے ساتھ اسے رخصت کیا۔ درویش خداکے توکل پر بھروسہ کرکے کئی منزلوں کو پار کرتاہوا دمشق کے پاس پہنچا۔
جب وہ شہر کے دروازے پرپہنچاتو کافی رات بیت چکی تھی۔ محافظوں اور در بانوں نے شہر کادروازہ بندکردیاتھا۔ درویش نے بڑی منت سماجت کی کہ وہ دوردراز سے تھکاماندہ آیاہے۔ اگر کواڑ کھول دیا جائے تو شہر کے اندرداخل ہوکر کچھ دیر آرام کرلے مگر دربانوں نے صاف انکار کردیا۔ بادلِ ناخواستہ وہ شہر پناہ کی دیوار کے نیچے زین پوش بچھاکربیٹھ گیا اور بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھیک آدھی رات وقت یہ دیکھ کر اس کا دل دھڑکنے لگاکہ ایک کاٹھ کاصندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلاآتاہے۔ کچھ دیر کے لئے اسے ایسامحسوس ہواکہ خدانے اس کی حالت پر رحم فرماکرایک خزانۂ غیب عنایت کیاہے۔ خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات اس کے دل میں پیدا ہورہے تھے۔

غالبؔ کے اخلاق و عادات‘ کا خلاصہ
مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مرزاغالبؔ کی زندگی کے حالات پر مشتمل ایک کتاب’’یادگارِ غالبؔ ‘‘ لکھی جو اپنی زبان و بیان کی دلکشی اور شگفتگی کی وجہ سے ان کی دوسری تصنیفات کے مقابلہ میں انفرادی شان رکھتی ہے۔ دلکشی، دلچسپی اور انشاء کی لطافت کی وجہ سے اردو میں ایک بیش بہااضافہ ہے۔ یہ حالیؔ کی ایک شاہکار تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ مولانا حالیؔ غالبؔ کی شاعرانہ عظمت کے قائل تھے اور ان سے قریبی تعلقات تھے۔ اسی لئے حالیؔ نے ان کی سوانح پرقلم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے مرزاغالبؔ کی تصانیف دوستوں سے مستعار لے کر اور جس قدر مرزا کے حالات، اخلاق اور عادات کاسراغ ان کی تصانیف سے مِل سکا، انھیں قلم بند کیا اور جو باتیں ان کے اپنے ذہن میں محفوظ تھیں یادوستوں کی زبانی معلوم ہوئیں، ان کو بھی ضبط تحریر میں لایا۔ حالیؔ نے غالبؔ کی زندگی کے حالات، نجی باتوں اور ان کے لطائف و ظرائف کی طرف کم توجہ کی اور ان کی تصانیف کے تنقیدی مطالعہ کی طرف زیادہ، اس کے باوجود یہ کتاب غالبیات کے سلسلے کی پہلی اہم کتاب ہے۔ زیرِ نظر مضمون ’’یادگارِ غالبؔ ‘‘ کاایک حصّہ ہے جس میں غالبؔ کے اخلاق و عادات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے طنز و ظرافت کے چند نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں۔
مرزاغالبؔ کے اخلاق نہایت وسیع تھے۔ وہ ہر ایک سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ وہ ایسے شگفتہ طبیعت واقع ہوئے تھے کہ جو شخص ایک دفعہ ان سے مل آتاتھا، اس کو ہمیشہ ان سے ملنے کااشتیاق رہتاتھا۔ ان کے دوست ہر مذہب اور ملت کے پورے ہندوستان میں موجود تھے اور ان سے برابر خط و کتابت رہتی تھی۔ دوستوں کے خط کے جواب لکھنے میں انہیں ایک خاص مسرت ہوتی تھی۔ غزلوں کی اصلاح کے سوا اور مختلف قسم کی فرمائشیں ان کے دوست کرتے تھے اور وہ نہایت خوشی سے ان کی تعمیل کرتے تھے۔
مرزا غالبؔ کی آمدنی قلیل ہونے کے باوجود، ان کا حوصلہ فراخ تھا۔ سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ بہت کم جاتاتھا۔ غریبوں اور محتاجوں کی مدد اپنی حیثیت سے بڑھ کرکرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اکثر مالی دشواریوں کاشکاررہتے۔ نواب لفٹنٹ گورنر کے دربار سے جب ان کو سات پارچے کاخلعت مع تین رقوم جواہر کے مِلا اور گورنر کے چپراسی اور جمعدار قاعدے کے موافق انعام لینے کوآئے تو مرزاغالبؔ نے وہ خلعت اور رقوم فروخت کرکے انھیں انعام دے کررخصت کیا اور ان چپراسیوں کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوسکی۔ وہ اپنے ان دوستوں جو گردشِ روزگار سے بگڑگئے تھے،نہایت شریفانہ طور سے سلوک کرتے تھے ۔ مرزا کے ایک دوست جن کا شمار دلی کے عمائدین میں سے تھا، غدر کے بعد ان کی حالت خستہ ہوگئی تھی۔ ایک روز وہ چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے مرزا غالبؔ سے ملنے آئے۔ ان کے جسم پر ا س درجہ گٹھیا کپڑا دیکھ کر غالبؔ کا دل بھرآیا۔ انھوں نے اس کپڑے سے اپنی پسندیدگی کابہانہ کیا اور ان کے جسم پر اس درجہ گٹھیا کپڑا دیکھ کر غالبؔ کادل بھرآیا۔ انہوں نے اس کپڑے سے اپنی پسندیدگی کا بہانہ کیا اور ان سے چھینٹ کافرغل لے کر اپنا قیمتی مالیدہ کانیا چغہ ان کی نذرکیا۔
مرزاغالبؔ کاحافظہ نہایت قوی تھا۔ ان کے گھرمیں کوئی کتاب موجود نہیں تھی۔ ہمیشہ کرائے کی کتابیں منگواکر مطالعہ کرتے تھے اور جو لطیف یاکام کی بات کتاب میں نظر پڑجاتی تھی، ان کے دل پر نقش ہوجاتی تھی۔ فکرِ شعر کایہ طریقہ تھا کہ اکثر رات کو عالم سرخوشی میں فکر کیاکرتے تھے اور جب کوئی شعر ذہن میں آجاتوکمربندمیں ایک گرہ لگالیتے اور اس طرح آٹھ دس گرہیں لگاکرسوجاتے اور دوسرے دن صرف یاد پر سوچ سوچ کر غزل کے تمام اشعار قلم بند کرلیتے تھے۔
مرزاغالبؔ نہایت ظریف الطبع واقع ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے ۔ ان کی زبان سے جوکچھ نکلتا تھا، لطف سے خالی نہ ہوتاتھا اور بقول مولانا حالیؔ ’’ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجائے حیوانِ ناطق کے حیوانِ ظریف کہاجائے تو بجاہے۔ حسنِ بیان، حاضر جوابی اور بات میں سے بات پیداکرنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔
ایک دفعہ جب رمضان گزر چکا تو قلعہ میں گئے۔ بادشاہ نے غالبؔ سے پوچھا کہ انہوں نے کتنے روزے رکھے۔ مرزا نے برجستہ جواب دیا کہ پیرومرشد ایک نہیں تھا۔
ایک روز دوپہر کاکھانا آیا اوردسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانانہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکراکرکہا اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجئے تو دسترخوان یزید کادسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جوکھانے کی مقدار کودیکھئے تو بایزید کا۔
مرزاغالبؔ کو آم بہت پسند تھا۔ آموں کے فصل میں ان کے دوست واحباب عمدہ قسم کے آم بطورِ ہدیہ بھیجتے تھے اور بعض اوقات وہ اپنے دوستوں سے تقاضا کرکے آم منگواتے تھے۔ حالیؔ نے آم کے تعلق سے غالبؔ کاایک لطیفہ نقل کیا ہے۔ مرزا کے ایک نہایت دوست حکیم رضی الدین خاں تھے جن کو آم بالکل ناپسند تھے۔ ایک دن وہ مرزا کے مکان پر ان کے ساتھ برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے گلی میں ایک گدھے کودیکھا جو آم کے چھلکے کو سونگھ کرچھوڑدیاتھا۔ اس پر حکیم صاحب نے کہاکہ دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔ مرزاغالبؔ نے برجستہ کہا’’بے شک گدھاآم نہیں کھاتا‘‘۔ایک محفل میں مرزاغالبؔ اور ان کے دیگراحباب جمع تھے اور آم کی نسبت گفتگوہورہی تھی کہ اس میں کیاکیا خوبیاں ہونی چاہئے۔ سب نے اپنی اپنی رائے بیان کی اور آخر میں مرزا نے کہا کہ ان کے نزدیک آم میں دو باتیں ہوناچاہئیں یعنی میٹھا ہواور بہت ہو۔
ایک دن سید سردار مرزامرحوم شام کے وقت مرزاغالبؔ سے ملنے چلے آئے۔ جب وہ واپس جانے لگے تو مرزا اپنے ہاتھ میں شمعدان لے کرانھیں رخصت کرنے آئے تاکہ روشنی میں وہ اپنے جوتے کی پہچان کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو زحمت فرمانے کی ضرورت نہ تھی میں اپنا جوتا آپ پہن لیتا۔ مرزانے کہا کہ میں شمعدان اس لئے لایاہوں کہ کہیں آپ اندھیرے میں میرا جوتانہ پہن جائیں۔
غرض حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالبؔ ‘‘ میں غالبؔ کے ملفوظات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص غالبؔ کے تمام ملفوظات جمع کرتا تو ایک ضخیم کتاب لطائف و ظرائف کی تیار ہوجاتی۔ غالبؔ کی دلفریب شخصیت اور شاعرانہ عظمت کوپہلی مرتبہ حالیؔ نے بے نقاب کیاہے اور غالبؔ شناسی کے سلسلے میں حالیؔ کی ’’یادگارِ غالبؔ ‘‘ اولین بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
امید کی خوشی ‘کا خلاصہ
سرسید احمد خاں ایک مصلح، رہنما اور مفکر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ انھیں قوم اور ملک کی ترقی کی دھن تھی۔ ۱۸۵۷ ؁.ء کے غدر کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی ذہنی تعمیر اور نشاۃِ نو کے سلسلہ میں سرسید نے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ، وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کے اصلاحی کارناموں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی، معاشرتی ، اخلاقی ہر قسم کی ترقی کا سہرا سرسید کے سرہے۔ انھوں نے اپنے زمانہ میں حسبِ مقدور مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی کوشش کی اور تمام مخالفتوں کے باوجود علی گڑھ تحریک اور مسلم یونی ورسٹی کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی کایا پلٹ دی۔ سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد مسلمان اس قدر پست ہمت اور مایوس ہوچکے تھے کہ وہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ چل نہیں سکتے تھے۔ سرسید نے اس شکست خوردہ قوم کی تباہی و بربادی اور ان کے مستقبل پر غور و فکر کر کے ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا چاہا۔ رسالہ’’تہذیب الاخلاق نکال کر اس میں ہر قسم کے مضامین کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاح کی۔ انہوں نے بہت سے اعلیٰ درجے کے انگریزی مضامین کو اردو کا قالب پہنایا اور اس طرح کہ انگریزی خیالات اردو میں اردو کی خصوصیات کے ساتھ ادا کئے۔ ’’امید کی خوشی‘‘ کا مضمون دراصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے جس میں سرسید نے امید کو مخاطب کیا ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی روشنی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
سرسید نے اس مضمون میں یہ بتایا ہے کہ انسان کی کامیابی کا دارومدار امید پر ہے۔ اگر زندگی میں امید کا سہارا نہ ہو تو انسان بہت جلد مایوس ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مختلف مثالوں سے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اور اس دنیا میں کوئی انسان امید کے بغیر ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔
سرسید نے امید کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری زندگی سے دور رہتے ہوئے بھی امید ہم سے قریب ہے۔ یہ مصیبت کے وقت ہم کو تسلّی دیتی ہے اور آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ امید ہی کی بدولت دور دراز خوشیاں ہم کو بہت قریب دکھائی دیتی ہیں۔زندگی کے سارے مشکل کام اس کے سہارے آسان ہوتے ہیں۔ ہمارے خواب و خیال کی تعبیر اسی سے پوری ہوتی ہے۔ سرسید نے اپنی اس بات کی تائید میں تاریخِ اسلام میں سے چند واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السّلام سے جب ایک اجتہادی لغزش ہوگئی اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اس چیز کا استعمال کرایا جس سے آپؑ کو منع کیا گیا تھا، تو اس کے نتیجہ میں آپ کو جنت سے زمین پر اتاردیاگیا۔ آپ نے اتنی آہ و زاریاں کیں کہ روئے زمین پر کسی نے اتنی نہ کی ہوں گی۔ ایسے وقت میں امید ہی نے سہارا بن کر انہیں مایوس نہ ہونے دیا اور ذلت اور رسوائی سے نکال کر اس اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا جہاں کہ فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھا۔
حضرت نوح علیہ السّلام سینکڑوں برس دعوت وتبلیغ کی محنت میں لگے رہے لیکن قوم نے نافرمانی کی اور انہیں اذّیت دی۔ اس کے باوجود آپ مایوں نہیں ہوئے بلکہ برابر دعوتِ دین میں لگے رہے۔ جب ظلم کی انتہا ہوگئی تو حق تعالیٰ شانہٗ کا عذاب طوفان کی شکل میں آیا۔ اس طوفان میں نوحؑ کی کشتی چلانے والی اور اس کا بیڑا پارلگانے والی صرف امید ہی تھی۔ اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لاکر کشتی میں شوار ہوچکے تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السّلام کو اپنے چہیتے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام کی جدائی کا غم اتنا تھا کہ ان کے فراق میں روتے روتے آپ کی آنکھوں کی بصارت زائل ہوچکی تھی۔ غم سے ان کی حالت خراب تھی لیکن امید ہی وصل کا پیغام بن کر ان کو زندہ اور خوش رکھے ہوئی تھی۔
حضرت یوسف علیہ السّلام سات تہہ خانوں میں بند تھے۔ اپنے وطن سے دُور ، بے یار و مددگار غیر مذہب لوگوں کے ہاتھوں میں قید تھے۔ اپنے باپ اور سگے بھائی کی جدائی سے غمگین تھے۔ قید خانے کی مصیبت ، اس کی تنہائی اور اپنی بے گناہی کے خیال نے انہیں رنجیدہ بنادیا تھا۔ ان سب کے باوجود صرف ایک امید کے سہارے سے وہ زندہ اور خوش تھے۔
مید انِ جنگ میں بہادر سپاہی جب دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے تو صرف امید ہی کے سہارے اپنی جان کی بازی لگادیتا ہے۔ وہ بے خوف خطر میدانِ جنگ میں کود پڑتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو خون میں لتھڑا ہو ادیکھتا ہے پھر بھی مایوس نہیں ہوتا بلکہ فتح مندی اور کامیابی کا خیال اس کو تقویت اور حوصلہ دیتا ہے۔
ماں اپنے چھوٹے بچے کو گہوارے میں سلاتے ہوئے لوری دیتی ہے تو اس وقت اس کے دل میں اپنے بچے سے متعلق سینکڑوں قسم کے ارمان اور تمنائیں انگڑائیاں لیتی ہیں وہ اس کے مستقبل کا خوش آئند خواب دیکھتی ہے اور اس کے دل سے اپنے بچے کے لئے بہت سی دُعائیں نکلتی ہیں ۔ بہت ساری امیدیں اس سے وابستہ رہتی ہیں۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے امید کی خوشیاں اور زیادہ ہوتی جاتی ہیں۔
آخر میں سرسید نے اپنے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے قوم کی ترقی اور فلاح و بہبودی کے لئے دن رات ہر قسم کی قربانی دی لیکن قوم نے ان کی ان گراں قدر خدمات کی قدر نہیں کی۔ انھیں بُرا بھلا کہا اور مختلف قسم کے خطابات سے نوازا مگر اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس امید پر برابر اپنے کام میں لگے رہے کہ ایک نہ ایک دن اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے اور گوہرِ مراد کو پائیں گے۔
آخر میں سرسید نے انسان کی زندگی کے آخری لمحوں کا ذکر کیا ہے جب وہ مرنے کے قریب ہوتا ہے اس وقت امید کا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی ، امید ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ قیامت پر یقین نہ کرنے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ موت اس کی تمام مشکلوں اور مصیبوں کا خاتمہ کردیتی ہے اور پھر آئندہ کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔
غرض اس مضمون میں شروع سے آخر تک سرسید نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کو امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
زبیدہ خاتون‘کا خلاصہ
یہ مضمون مولانا عبدالحلیم شررؔ کالکھاہواہے۔ آپ اردو زبان کے ایک اچھے ادیب، صحافی اور ناول گار ہیں۔ تاریخی واقعات پر آپ کی نظر گہری ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں آپ نے زبیدہ خاتون کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کابھی ازالہ کیاہے۔
زبیدہ خاتون خلیفہ منصور کی پوتی، خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ اور خلیفہ امین کی ماں تھی ۔اصل نام امۃ العزیز تھا۔ زبیدہ دراصل خلیفہ منصور کادیاہوانام تھا۔ یہی نام مشہورہوگیا۔ بچپن میں خلیفہ منصور اپنی پوتی کو ہاتھوں پر نچاتے اور کہتے زبیدہ ہے زبیدہ۔زبیدہ عربی میں اُس آلے کوکہتے ہیں جس کو گھماگھما کر مکھن نکالاجاتاہے۔
زبیدہ نہایت نیک سیرت، خوب صورت، پاکباز خاتون تھی۔ بعض کتابوں میں زبیدہ کے چال و چلن پر شبہ ظاہر کرکے اس کے کردار کوداغ دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اچھے اخلاق اور سیرت کی خاتون تھی۔ زبیدہ نہایت خوش قسمت تھی۔ جس سال ہارون رشید کے ساتھ اس کا نکاح ہوا اسی سال ہارون جو اس وقت شہزادہ تھا کئی قلعے فتح کئے، رومیوں کو شکست دی اور ان فتوحات سے خوش ہوکر اس کے باپ خلیفہ مہدی نے اُسے اپنا ولی عہد مقرر کردیا جب کہ وہ اُس کابڑابیٹانہیں تھا۔ ہارون الرشید، اپنی ملکہ زبیدہ کو بہت چاہتاتھا۔
ہارون الرشید کے انتقال کے بعد زبیدہ خاتون کابیٹا امین الرشید خلیفہ ہوا لیکن اپنی نالائقی اور عیش پسندی کے سبب سے اپنے بھائی مامون الرشید کے ہاتھوں ماراگیا۔مامون الرشید خلیفہ ہواتو اس نے اپنی سوتیلی ماں زبیدہ خاتون کے ساتھ نیک سلوک کیا۔ خود زبیدہ خاتون نے بھی وقت کی نزاکت کااندازہ کرکے مصلحت اور سمجھ بوجھ سے کام لیا۔ خود اپنے بچے کے قاتل کے ساتھ حسن سلوک زبیدہ کے لئے بڑی آزمائش کاوقت تھا۔ لیکن زبیدہ ایک باحوصلہ اور دلیر عورت تھی۔ اس نے کچھ اشعارلکھ کر مامون الرشید کی خدمت میں پیش کئے جن میں اپنے اکلوتے بیٹے کی مظلومانہ موت پر غم اور افسوس بھی ظاہر کیاگیاتھا لیکن ساتھ ساتھ مامون الرشید کے ساتھ اپنی وفاداری کابھی اظہار کردیاگیاتھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلیفہ مامون اپنی سوتیلی ماں زبیدہ خاتون کی نہایت عزت کرنے لگا اور آخر دم تک اس کی ہر تمناپوری کی۔ زبیدہ نے بھی حقیقی ماں کی طرح مامون کی شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی سبب تھا کہ مامون کی نئی نویلی دلہن نے زبیدہ خاتون کے حج کے لئے خلیفہ سے سفارش کی اور یہ سفارش منظور ہوئی۔ ورنہ خلیفہ مامون اپنی سوتیلی ماں کو اس قدر چاہتاتھا کہ سفرِ حج کی لمبی مدت کے لئے اس کی جدائی بھی اسے ناپسندتھی۔
زبیدہ خاتون کایہ سفرِ حج رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ اس فیاض اور نیک ملکہ نے حاجیوں کے لئے بڑی سہولتیں پیداکردیں۔ ان سہولتوں میں سب سے بڑی سہولت جو آج تک جاری ہے، مکہ معظّمہ اور مدینہ منورہ میں پینے کے پانی کیلئے نہرکاجاری کرناہے۔ دریائے دجلہ سے لمبی مسافت طئے کرکے دشوار گذار پہاڑوں کوکاٹ کر نہرنکال کرلاناایک بے حد مشکل کام تھا لیکن زبیدہ خاتون کی ذاتی دلچسپی اور لگن سے ہی یہ ممکن ہوسکا اور آج زبیدہ خاتون کانام اسی ایک نہر کی وجہ سے زندہ ہے۔ حج سے واپسی کے بعد زبیدہ چھ سال تک زندہ رہی اور ۲۱۲.ھ میں بغداد میں انتقال کیا۔

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘کا خلاصہ
یہ مضمون پطرس بخاری نے لکھاہے۔ آپ کا شمار اردو کے بلند پایہ مزاح نگاروں میں ہوتاہے۔ آپ انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن اردو میں ناموری حاصل ہوئی۔ آپ کے مزاحیہ مضامین ’’مضامین پطرس‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
’’
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ پطرس بخاری کے چند مشہور مضامین میں سے ایک ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے کالج کے ہاسٹل کی زندگی پر تبصرہ کیاہے۔مزاحیہ انداز سے کالج کے طلباء کی سستی اور کاہلی پر طنزکیاہے کہ کس طرح وہ امتحانات کی تیاری میں کوتاہی برتتے ہیں اور پوراسال یوں ہی گزاردیتے ہیں اور جب امتحانات قریب آجاتے ہیں تو کس طرح پریشان ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی سستی اور کاہلی سے پڑھنے کی طرف دل نہیں مائل ہوتا۔وقت ناکافی ہونے کے سبب وہ علی الصبح اٹھ کر پڑھنا چاہتے ہیں لیکن دس بجے بیدار ہونے کی جو اپنی عادت ہے اس سے مجبور ہیں۔ کوشش کے باوجود وہ اس عادت کے خلاف کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ پطرس بخاری نے اس مضمون میں کالج کے نوجوانوں کی اسی بدخصلت پر چوٹ کی ہے۔
پطرس بخاری نے یہ مضمون واحد متکلم کے صیغے میں لکھا ہے یعنی وہ خود اپنے حالات بیان کرتے ہیں ممکن ہے انھوں نے اپنے طالبِ علمی کے حالات ذرا مبالغے سے پیش کئے ہوں لیکن جس خوبصورتی سے انھوں نے صبح جاگنے کاحال بیان کیاہے اس سے پڑھنے والے کے لئے دل لگی کا بڑا اچھا سامان مہیاکیاہے۔ قصّہ یوں ہے کہ کالج میں طالبِ علمی کے زمانے میں پطرس بخاری کاقیام ہوسٹل میں رہتاتھا۔ خوش گپیوں میں دن گزرتے رہے۔ کتابی مطالعے کی توفیق نہیں ہوتی تھی۔ صبح دس بجے جب کالج کا گھنٹہ بجتاتھا تو اس کی آواز سے گڑبڑاکربسترسے اٹھتے تھے جلدی جلدی کپڑے بدل کر کالج روانہ ہوجاتے تھے۔ غالباً ہوسٹل کالج کے احاطے ہی میں تھا۔ اس عادت سے نجات پانے کے لئے اپنے بازوالے کمرے میں ایک ہندو طالبِ علم لالہ جی سے علی الصبح جگانے کی درخواست کی۔ لالہ جی نے یہ سمجھا کہ پانچ بجے تو سب جاگ جاتے ہیں چوں کہ امتحانات کے دن قریب آرہے ہیں تو انھوں نے تین بجے ہی کمرے کے دروازے پردستک دینے لگے۔ یہ دستک پطرس بخاری کو بری معلوم ہوتی تھی کیوں کہ نیند کا نشہ ان پر طاری رہتاتھا۔ جب انھیںیہ معلوم ہواکہ لالہ جی نے پانچ بجے کے بجائے تین بجے ہی جگادیا ہے تو سخت ناراض ہوئے اور دوبارہ بستر میں داخل ہوگئے اور دس بجے حسب معلوم جاگے۔ جاگنے کے بعد تمام دن اپنے آپ پر ملامت کرتے رہے۔ پھرلالہ جی سے معذرت کرنے لگے اور درخواست کی کہ صبح چھ بجے جگادیاکریں۔ لالہ جی نے چھ بجے جگایاتو انھیں ’’گڈمارننگ‘‘ کہہ کر اپنے جاگنے کا یقین دلایا پھر یہ سوچتے ہوئے کہ اب کیا مطالعہ کرنا ہے ، بستر پر لیٹے رہے اور آہستہ آہستہ آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس طرح وہی دس بجے کالج کے گھنٹے کی آواز پر جاگے۔ اس کے بعد یہی معمول ہوگیا تھا کہ جاگنا نمبر ایک چھ بجے ہوتا تھا اور جاگنا نمبر دو دس بجے ہوتاتھا۔ اس درمیان میں لالہ جی کوئی سوال کریں تو انھیں یہ کہہ کر خاموش کرادیتے تھے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
پطرس بخاری نے اس مضمون میں کالج کے طلباء کی کمزوریوں پر طنز کیاہے اور اپنی خوبصورت زبان میں طلباء کی نفسیات بیان کی ہے کہ کس طرح نیند کاغلبہ انھیں اپنی ذمہ داریوں سے غافل کردیتاہے اور ان کی قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے۔ پطرس بخاری کی یہ خوبی ہے کہ ہرہرلفظ اور ادا سے مزاح پیداکرتے ہیں اور قاری زیرِ لب مسکراتاہی رہتاہے۔


قصّہ حاتم طائی‘کا خلاصہ
میرامن نے ڈاکٹر گل کرائسٹ کی فرمائش پر قصّۂ چہار درویش کو سادہ اور سلیس اردو میں لکھا اور اس کانام ’’باغ و بہار‘‘ رکھا۔ باغ وبہار اردو کی مختصر داستانوں میں امتیازی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں ایک بادشاہ اور چاردرویشوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں جنہیں تمہید اور خاتمے کے ذریعہ آپس میں جوڑدیاگیاہے۔ ان چار درویشوں میں سے ایک ملک التجار کالڑکاہے اور باقی تین فارس، عجم اور چین کے شہزادے ہیں۔ چاروں درویش جب بادشاہ آزاد بخت کے یہاں اکٹھاہوتے ہیں تو یکے بعد دیگرے ہرایک اپنی اپنی سرگزشت سناتے ہیں۔
دوسرے درویش نے جو فارس کا شہزادہ تھا، اپنی سرگرشت بیان کرتے ہوئے کہاکہ اس نے ایک صاحب داں سے حاتم طائی کاقصّہ سُنا جو اپنی داد و دہش اور انسانی خدمت کے سبب اتنا نامور ہوگیا تھا کہ اس سے بادشاہِ عرب نوفل کو حسد ہوگیا اور وہ بہت سی فوج و لشکر لے کر اس کے ملک پر حملہ آور ہوا حاتم تو خداترس، نیک اور رحم دل انسان تھا۔ اپنے نام افسانوں کی تباہی کا عذاب لکھوانا نہیں چاہتاتھا لہٰذا تن تنہا ایک پہاڑی کی کھوہ میں جاچھپا۔ جب نوفل کو حاتم کے غائب ہوجانے کی خبرملی تو اس کا تمام اسباب ضبط کرلیاا ور اس کو پکڑلانے کے لئے پانچ سو اشرفیوں کے انعام کا ڈھنڈورا پٹوادیا۔ انعام کااعلان سن کر سب کو لالچ آیا اور سب حاتم کو پکڑنے کی جستجو میں لگ گئے۔
ایک روز ایک غریب بڑھیا اور اس کا بڈھا اپنے دو تین بچوں کو ساتھ لے کر لکڑیاں توڑنے کے لئے اس غار کے قریب پہنچے جہاں حاتم پوشیدہ تھا۔ بڑھیا نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دن کچھ بھلے آتے تو ہم حاتم کو کہیں دیکھ پاتے اور اس کو پکڑکر نوفل کے پاس لے جاتے جس کے عوض ہمیں پانچ سو اشرفیاں انعام میں ملتیں اور ہماری قسمت سنور جاتی اور ہم اطمینان اور چین سے زندگی گزارتے۔ بوڑھے نے اُسے ڈانٹا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھاہے کہ ہم روزانہ محنت و مشقت کریں تب ہمیں روٹی میسر آئے۔ جھونپڑوں میں رہ کر محلوں کے خواب مت دیکھ ۔ خاموشی سے اپنا کام کر۔ بوڑھے کے ڈانٹ دینے پر بڑھیا نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہورہی۔ ان دونوں کی گفتگو حاتم نے سنی۔ مردمی اور مروت سے بعید جاناکہ اپنی جان بچائے اور ان غریب مزدوروں کو ان کے مقصد پر نہ پہنچائے۔ اس لئے کہ جس آدمی کے اندر رحم کا مادّہ نہیں، اس کا شمار انسانوں میں نہیں۔
غرض کہ حاتم نے یہ گوارا نہیں کیاکہ ان کے حالات معلوم ہونے کے باوجود ان کی مدد نہ کی جائے۔ وہ غار سے باہر نکل آیا اور بوڑھے سے کہا کہ جس شخص کی گرفتاری پر بادشاہ نے انعام کااعلان کیاہے، وہ شخص میں ہی ہوں، لہٰذا مجھے نوفل کے پاس لے چل اور اس کے حوالہ کرکے اپنی رقم حاصل کرلے۔ حاتم نے جیسے ہی اپنے آپ کو پیش کیا، بوڑھے کے دل میں خدا کاخوف آیا۔ اس نے سوچا کہ پتہ نہیں بادشاہ اس کے ساتھ کیاسلوک کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے مارڈالے۔ اپنی آرام و راحت کی خاطر دوسروں کی زندگی کوداؤں پر لگانا انسانیت سے بعید ہے۔آخر وہ مال کتنے دن تک کام آئے گا۔ مرنے کے بعد خدا کے حضور اس کا جواب دینا ہے ۔ حاتم نے بہت منت و سماجت کی کہ وہ کسی طرح اُسے بادشاہ کے پاس لے چلے کہ ہمیشہ اس کی یہی آرزو رہی ہے کہ اس کی جان و مال کسی کے کام آجائے لیکن وہ بوڑھا کسی طرح اس پر راضی نہ ہوا۔ اتنے میں اور لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے اور جب انہیں پتہ چلا کہ مطلوبہ حاتم یہی ہے جس کی تلاش ہے توانہوں نے فوراً اسے گرفتار کرلیااور بادشاہ کے پاس لے چلے۔ وہ بوڑھا بھی افسوس کرتا ہوا ان کے پیچھے پیچھے چلا۔
جب نوفل بادشاہ کے دربارمیں پہنچے اور حاتم کو اس کے سامنے پیش کیا تو بادشاہ نے دریافت کیاکہ کون اس کو پکڑلایاہے۔ان جھوٹے دعویداروں میں سے ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر یہی کہا کہ ایسا کام سوائے میرے اور کون کرسکتا ہے۔ جب سب اپنی اپنی مردانگی بگھار چکے تو حاتم نے بادشاہ سے کہاکہ سچ بات تو یہی ہے کہ وہ بوڑھا جو سب سے الگ کھڑا ہے، مجھے دلایا ہے اور اصل میں انعام کاحقدار وہی ہے۔ بادشاہ نے جب بوڑھے سے دریافت کیا تو اُس نے پورا حال کہہ سنایا اور کہاکہ حاتم میری خاطرآپ ہی چلاآیاہے۔ جب نوفل کو حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے حاتم کی ہمت اور سخاوت کی داد دی اور جھوٹے دعوے کرنے والوں کے بارے میں حکم دیا کہ ان کے سروں پر پانچ سو جوتیاں لگوائی جائیں تاکہ ان کا بھیجا نکل پڑے۔ حاتم کی اس ہمت اور سخاوت سے نوفل بہت متاثرہواکہ محتاجوں کی مدد کی خاطر اس نے اپنی جان تک کی پروانہ کی۔ تواضع اور تعظیم سے اسے اپنے پاس بٹھایا اور جو کچھ اس کا مال و اسباب ضبط کیا تھا، واپس کردیا اور بوڑھے کو اپنے قول کے مطابق پانچ سو اشرفیاں اپنے خزانے سے دلوادیں۔ وہ دعائیں دیتا ہوا چلاگیا۔
سرسید مرحوم اور اردو لٹریچر‘کا خلاصہ
سرسید احمد خاں کی ادبی خدمات میں علامہ شبلی ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ شبلیؔ نے سرسید کے مشین کاکامیاب بنانے میں اپنے قلم کاسہارالیا۔ نیز ناقد، مورخ، انشاپرداز، شاعر اور سوانح نگارکی حیثیت سے اردو کی نادر تخلیقات پیش کرکے جدید اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیاہے۔ اس مضمون میں موصوف نے سرسید کی ادبی خدمات اور اپنی بات کی صداقت میں سرسید کے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مضامین بطورنمونہ پیش کئے ہیں۔
سرسید احمد خاں کااردو ادب پر بڑا احسان ہے۔ انھوں نے مایوس اور افسردہ قوم میں نئی روح پھونکنے اور جہالت اور قدامت پرستی سے نکال کرنئے افکار، نئے خیالات اور نئی قدروں سے ان کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کی۔ وہ اردو کے اولین معماروں میں سے تھے جنھوں نے نہ صرف اردو زبان کی حفاظت کی بلکہ اس کو غیر معمولی ترقی دے کر اردو ادب کے نشوونما میں نمایاں حصہ لیا۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے محدود دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی غرض ہر قسم کے مضامین اس سادگی اور صفائی سے ادا کی جانے لگی کہ اسے فارسی جیسی ایک ترقی یافتہ علمی زبان پر بھی سبقت حاصل ہوئی۔
سرسید نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں اہلِ کمال کاایک بڑامجموعہ تھا اور اعلیٰ سے ادنیٰ طبقہ تک میں علمی مزاج موجود تھا۔انھوں نے اپنے ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا، آہیؔ تخلص تھا۔ لیکن ان کو شاعری سے مناسبت نہ تھی۔ لہٰذا وہ بہت جلد اس کوچہ سے نکل آئے اور نثر کی طرف توجہ کی چوں کہ حقائق اور واقعات کی طرف ابتدا سے میلان تھا اس لئے دلی کی عمارتوں اور یادگار کی تحقیقات شروع کی اورنہایت محنت اور کوشش سے ایک مبسوط کتاب ’’آثارِ الصنادید‘‘ لکھی جس نے کافی شہرت حاصل کی۔
سرسید منکسرالمزاج تھے ۔ ان کی سادگی ان کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔ ان کے اسلوبِ تحریر پر مرزاغالبؔ کے اسلوب کانمایاں اثر دکھائی دیتاہے۔ جنھوں نے اردو ادب کو ایک عام فہم اور سادہ اور بے تکلف عبارت آرائی سے روشناس کیا۔ سرسید نے قوم کی اصلاح کے لئے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا رسالہ نکالا اور اردو انشاپردازی کو اس درجہ تک پہنچایاکہ اس کے آگے اب ایک قدم بڑھنابھی ممکن نہیں ہے۔ سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردونثر کو اجتماعی مقاصد سے روشناس کیا اور اس کو سہل اور سلیس بناکر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور اظہارِ خیال کاوسیلہ بنایا۔ سرسید کی انشاپردازی کاکمال اس وقت معلوم ہوتاہے جب وہ کسی علمی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں۔ اردو الفاظ اور علمی اصطلاحات اور تلمیحات بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ سرسید نے مشکل سے مشکل مسائل کو اس وضاحت، صفائی اور دل آویزی سے اداکیا ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرتاہے کہ وہ کوئی دلچسپ قصہ پڑھ رہاہے۔ مذہبی معاملات میں سرسید کو اگرچہ درک حاصل نہ تھا تاہم اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ بہت سے مذہبی مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے کوئی اور شخص ادا نہیں کرسکا۔ غرض سرسیدنے اردو انشاپردازی پر جو اثر ڈالاہے۔ اس کی تفصیل چند سطروں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
سرسید کی اہم خدمات یہ بھی ہیں کہ انھوں نے اردو نثر کی حدوں کو وسیع تر کردیا۔ انھوں نے ہر قسم کے مختلف مضامین پرکچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اور بقول علامہ شبلی جس مضمون کو لکھا ہے اس کو اس درجہ پر پہنچادیا ہے کہ اس سے بڑھناناممکن ہے۔ بہت سے اعلیٰ درجے کے انگریزی مضامین کو اردو کے قالب میں نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا۔ ’’امید کی خوشی‘‘، ’’بحث و تکرار‘‘اور ’’تعصب‘‘ جیسے مضامین اردو ادب کابہترین سرمایہ ہیں۔ انھوں نے اور ان کے رفقاء نے مختلف مضامین مثلاً مذہب، تاریخ، سیاست، تعلیم، اخلاق، معاشرت وغیرہ پر قلم اٹھایا اور اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اردو جو علمی اعتبار سے اس وقت ایک بے معنی زبان تھی، تھوڑے ہی عرصے میں اعلیٰ علمی جواہر ریزوں سے مالامال ہوگئی۔
سرسید کے مذہبی اور سیاسی نظریات سے اختلاف ممکن ہے لیکن انھوں نے اردو زبان و ادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں۔ اگرچہ سرسید سے پہلے میرامن اور مرزاغالبؔ سادہ و شگفتہ نثر کانمونہ پیش کر چکے تھے، اس کا دائرہ کہانی اور خطوط تک محدودتھا۔ سرسید نے ان بزرگوں کی روایت پر اضافہ کرتے ہوئے اردو نثر کے دائرہ کو وسیع کیا۔ اس میں توانائی اور ہر رنگ میں ڈھل سکنے کی صلاحیت پیداکی اور اس لائق بنایا کہ وہ ترقی یافتہ زبانوں کے سامنے سراٹھاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرسید نے اردو ادب کی اتنی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں کہ اردو زبان و ادب کی پوری تاریخ میں کوئی دوسرا شخص ان کے ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
نورجہاں‘کا خلاصہ
اردو کے بلند پایہ نثرنگاروں میں مولوی محمد حسین آزادؔ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے زندگی کے تقریباً ساٹھ برس تصنیف و تالیف میں بسر کئے اور آبِ حیات اور نیزنگِ خیال جیسی شاہکار کتابیں لکھ کر شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں ہمیشہ کے لئے اپنا مقام محفوظ کرلیا۔ تحقیق، تنقید، لسانیات، تاریخِ ادب، تاریخ ہند.........غرض ان کے قلم نے مختلف میدانوں میں اپنے جوہر دکھائے مگر وہ شئی جس نے اردو ادب میں انھیں حیاتِ جاوداں عطاکی وہ ان کا اسلوبِ نگارش ہے۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر سطرلفظوں کامجموعہ نہیں ہوتی، سچے موتیوں کی لڑی ہوتی ہے۔ الفاظ و محاورات کا صحیح انتخاب، مناسب استعارہ و تشبیہہ کااستعمال، عبارت کی شگفتگی اور دلکشی وہ خصوصیات ہیں جو آزاد کی تحریروں کو لازوال اور بے مثال بنادیتی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون ’’نورجہاں‘‘ محمد حسین آزاد کایک ایک تاریخی مضمون ہے جس میں انھوں نے نہایت اختصار کے ساتھ نورجہاں کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کس کس مپرسی کے عالَم میں اس کی پیدائش ہوئی اور اس کی قسمت کا ستارہ ایسا چمکاکہ وہ آگے چل کر ملکۂ ہندوستان بن گئی۔
خواجہ محمد شریف ایران کے دربار کاایک عہدہ دارتھا۔ چوں کہ وہ بالیاقت اور صاحبِ تدبیر تھا لہٰذا چند ہی دنوں میں ترقی کرکے وزارت کے مرتبہ کوپہنچ گیا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے فرزند مرزا غیاث الدین پرا تنی مصیبتیں آپڑیں کہ معاش کی تلاش میں مجبوراً اپنی حاملہ بیوی کو لے کر ایک قافلہ کے پیچھے پیچھے ہندوستان روانہ ہوا۔ اس بے سروسامانی کے سفر میں اس کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ان کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ چوں کہ اُسے ساتھ لے جانا دشوار تھا لہٰذا والدین نے خدا پر توکل کرکے اُسے وہیں جنگل میں چھوڑدیا اور روتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ ایک رات کی جان جنگل میں پڑی روتی تھی۔ تھک جاتی تو ہاتھ چوسنے لگتی۔ پیچھے ایک قافلہ آرہاتھا۔ اس کے سودا گرنے جب ایک نوزائیدہ اور نہایت ہی حسین و جمیل بچی کو زمین پر پڑاہوادیکھا تو حیران رہ گیا۔ اسے گود میں لئے ہوئے منزل پر آیا اور بہت کچھ سوچ اور تلاش کے بعد اُسے دودھ پلانے کے لئے کچھ اجرت پر مرزاغیاث اور س کی بیوی کے حوالہ کردیا گیا۔ اس طرح اس بچی کی بدولت مرزااور اس کی بیوی کے خورونوش کامسئلہ حل ہوگیا اور ساتھ ہی ان کے لئے ایک سواری کا انتظام بھی کردیاگیا۔ سوداگر مرزا غیاث کی لیاقت اور شرافت سے بہت متاثر ہوا اور ہندوستان پہنچ کر اکبر بادشاہ کے دربارمیں اس کی سفارش کی۔ مرزاغیاث کے باپ خواجہ محمد شریف نے ، جب وہ ہرات کاحاکم تھا، ہمایوں بادشاہ کی بہت خدمت اور مدد کی تھی۔ اس احسان کے بدلہ میں اور اس کے ساتھ ہی اس کے اوصاف اور کمالات کی بناپر مرزا غیاث کو محل سرامیں ایک اچھے عہدہ پرفائز کردیا۔کچھ ہی دنوں میں مرزاغیاث کی بیوی کے بیگم سے اچھے تعلقات ہوگئے اور دوسرے امراء کی بیویوں کی طرح محل میں آنے جانے لگی۔ اس درمیان میں اس کی لڑکی مہرالنساء بھی جوانی کی سرحدوں کو چھونے لگی تھی اور وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ محل آیاجایاکرتی تھی۔
ایک دن شہزادہ جہانگیر کی ملاقات مہرالنساء سے مینابازار میں ہوگئی۔ وہ مہرالنساء کی صورت، سیرت اور اس کی دلبربااداؤں سے ایسا متاثر ہوا کہ دل و جان سے اس پر فریفتہ ہوگیا۔ ماں کو جب اس کا علم ہواتو اس نے بیگم سے شکایت کی اور بیٹی کو محل میں لے جاناچھوڑدیا۔ رفتہ رفتہ جب یہ شکایت کے کان تک پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوا اور شہزادے کو بُلاکر بہت سمجھایا۔ ساتھ ہی مرزاغیاث کی بیوی سے کہا کہ وہ جلد از جلد مہرالنساء کی شادی کہیں اور کردے۔ شاہ ایران کی نعمت خانے کاایک داروغہ علی قلی خاں تھا جو بڑاہی لیئق بہادر اور صورت کا وجیہہ تھا۔ جب وہ عبدالرحیم خان خاناں کے ساتھ مغل دربار پہنچا تو اکبر نے ایک معززعہدہ دے کر اس کی شادی مہرالنساء سے کردی اور ڈھاکے کاصوبے دار بناکر بھیج دیا۔ مہرالنساء نے اپنی خداداد صلاحیت اور حسن و جمال سے چند ہی روز میں میاں کو اپنا غلام بنالیا۔
جب جہانگیر بادشاہ ہواتو اس نے پھر سے مہرالنساء کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ علی قلی خاں کو بہانے سے بُلاکر مست ہاتھ اور پھرایک شیر سے نہتّا بھڑاکراسے مارڈالنے کی کی سازش کی۔ جس میں وہ بری طرح ناکام رہا۔ علی قلی خاں نے اس میں ایسا کارنامہ کردکھلایا کہ اُسے شیرافگن کاخطاب دیاگیا۔ جب جہانگیر کے سارے حربے بیکار ہوگئے تو اس نے ایک راز دار کی زبانی صاف پیغام بھیجا۔ شیرافگن کی غیرت نے یہ ہرگز گوارانہ کیااور اس نوکری پر ہزار لعنت کرکے اپنی جاگیر پرجابیٹھا۔ لیکن جہانگیر کے ارادے خطرناک ہوچکے تھے۔ چنانچہ قطب الدین کو وہاں کا صوبہ دار بناکر بھیجا اور اشارہ کردیاکہ کسی حیلے اور بہانے سے اس کا کام تمام کردے۔ جیسے ہی شیرافگن صوبے دار کے استقبال کوآیا، قطب الدین کے جانثاروں نے اسے گرفتار کرلیا۔ شیرافگن نے معاملہ بگڑتے دیکھ کر تلوار میاں سے نکال کر لی اور ایسا ہاتھ مارا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پرگرپڑے۔ بادشاہی سپاہی کو موقع ہاتھ آگیا اور انہوں نے شیرافگن کاکام تمام کردیا۔ سب گھر بار لوٹ کر دربار روانہ ہوئے مگر مقصد اسی گوہر شب چراغ سے تھا۔ چنانچہ ایک بی بی کے ذریعہ کھلم کھلا پیغام دے کر بھیجا مگر مہرالنساء کے روکھے پن جواب سے اس کا دل اچاٹ ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد ماں کو اشارہ کیاکہ وہ مہرالنساء کو اپنے مصاحبوں میں رکھ لے۔ ایک مدت کے بعد جہانگیر کی درخواست پر مہرالنساء نے اپنی رضامندی کااظہار کردیا اور وہ مہرالنساء سے نورمحل اور نورمحل سے نورجہاں کاخطاب پاکر ملکۂ ہندوستان بن گئی۔
ڈاکٹر عبدالحق مرحوم‘ کا خلاصہ
رشید احمد صدیقی اردو کے ایک صاحبِ طرز ادب اور انشاپرداز ہیں۔اردو ادب میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ مرقع نگاری ہے۔ وہ اپنے مرقعوں کے ذریعہ نہ صرف کرداروں کو ہمارے آگے چلتا پھرتا پیش کرتے ہیں بلکہ اپنے انداز و اسلوب کے باعث اس کردار کے عادات و خصائل کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر عبدالحق صاحب کا جو مرقع لکھا ہے اس میں ان کی سیرت و کردار اور عادات و اخلاق کے لازوال نقوش پیش کئے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کو ڈاکٹر عبدالحق کی علمی قابلیت اگر ایک طرف متاثر کرتی ہے تو دوسری طرف ان کا اخلاق و کردار بھی ان پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس مرقع میں رشید احمدصدیقی نے ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی دل آویز شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحق کا شمار مدراس کے مصروف ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ پبلک سرویس کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدہ دار ہونے کے علاوہ سماجی ذمہ داریوں اور خدمتِ خلق سے متعلق سرگرمیوں میں ہمہ وقت مشغول رہتے تھے۔ ان کی کوٹھی پر چھوٹے بڑے ہر طرح کے لوگ کوئی نہ کوئی ضرورت لے کر صبح سے رات تک برابر آتے جاتے رہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ان سے سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے اور نہایت خلوص کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے ۔ رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کا مکان کسی ایسے معالج کا مطب تھا جہاں ہر مریض کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی آمد کے سلسلہ میں کسی اور عہدہ دار سے مل کر سفارش کی ضرورت ہوتی تو اس سے بھی دریغ نہ کرے ۔ سماجی خدمات کے سلسلہ میں بہت کم لوگ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔
رشید احمد صدیقی اور ان کے گھر والوں سے ڈاکٹر عبدالحق کے گہرے مراسم تھے۔ چنانچہ ان کی لڑکی اور داماد ایک طویل سیاحت سے فارغ ہو کر جب جاپان سے سیلون پہنچے اور پھر وہاں سے مدراس کی سیر کی خواہش کا ڈاکٹر صاحب سے اظہار کیا تو انہوں نے اپنے سارے ضروری کاموں کو ملتوی کرکے مہمانوں کی خاطر تواضع میں اپنے آپ کو لگادیا۔ ہوائی جہاز کے اڈے پر پہنچ کر خود ان کا استقبال کیا اور انھیں اپنے گھر لے آئے۔ عبدالحق جیسے مصروف ترین شخص کے لئے یہ بالکل آسان تھا کہ وہ گھر والوں کو ضروری ہدایات دے کر دورے پر روانہ ہوجاتے مگر مہمان نوازی کے باب میں اخلاص اور اخلاق برتنے کا انھوں نے وہ ٹیکنک برتا ہے جو ان کا اپنا خاص تھا۔ ان مہانوں کوانہوں نے نہ صرف یہ کہ مدراس کے قابلِ دید مقامات کی سیرکروائی بلکہ اپنے دستِ خاص سے یہاں کے مشہور کھانے اور مٹھائیاں تیار کرکے باصرار کھلایا اور ان کی لذت اور لطافت بیان کی۔ اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود مہانوں کی خاطر و مدارات میں اپنے آپ کو ایسے لگایا کہ اس کے علاوہ گویا کوئی دوسرا کام ہی نہ ہو۔
ذاکر حسین صاحب، ڈاکٹر عبدالحق کی علمی قابلیتوں اور تنظیمی صلاحیتوں کے دل سے قائل تھے۔ چنانچہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پرووائس چانسلر کے عہدہ کے لئے ایک قابل شخصیت کی تلاش ہوئی تو ذاکر حسین کی نظرِ انتخاب ڈاکٹر عبدالحق پر پڑی۔ انہوں نے بڑے اصرار کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو یہ عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ جب ذاکر حسین امریکہ بغرض علاج تشریف لے گئے تو ان کی جگہ ڈاکٹر عبدالحق یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ علی گڑھ کے وہ ظاہر پرست لوگ جن کو اپنی قابلیت کا بڑا زعم تھا ، ڈاکٹر صاحب کی مولویانہ وضع قطع کے پیشِ نظر اس بڑے عہدے کے لئے انھیں نااہل سمجھتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے وسیع مطالعہ ،متنوع معلومات اور یونی ورسٹی کے تحفظ اور ترقی کے مسائل کی طرف ان کی خاص توجہات کا جب ان کو علم ہوا تو وہ ڈاکٹر صاحب کے قائل ہوگئے۔ انہون نے اپنے پچھلے طرزِ عمل پرپشیمانی ظاہر کی اور معافی کے خواستگارہوئے۔
رشید احمد صدیقی نے مہان نوازی کے سلسلہ میں بھی ڈاکٹر عبدالحق کے خلوص کی بہت ستائش کی ہے۔ سائنس کانگریس کے سالانہ جلسہ میں مدراس آئے ہوئے مسلم یونی ورسٹی کے نمائندوں کی خاطر تواضع اور آرام و تفریح ڈاکٹرصاحب نے اپنے ذمہ لے لی۔ پبلک سروس کمیشن کے کام سے جب بھی فرصت ملتی، ان نمائندوں کی خیریت دریافت کرنے نکل جاتے جو دُور دراز مقامات پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ مہمان نوازی کے سلسلے میں خود اپنی ذات کو جو تکلیف پہنچی تھی، ڈاکٹر صاحب نے کبھی اس کی پروا نہین کی بلکہ خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
ڈاکٹر عبدالحق عربی فارسی کے ایک متبحر عالم، اردو ادب کے شیدائی اور انگریزی اردو کے بڑے اچھے مقرر تھے ۔ مطالعہ بہت وسیع اور معلومات بہت گہری تھی۔ طبیعت ایسی شائستہ اور شگفتہ تھی کہ وہ کسی بھی موضوع پر برجستہ تقریر کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ یہ موضوع ان کے مدتوں کے مطالعوں کا نیتجہ تھا۔ خطابت کے فن سے واقف ہونے کے باوجود اس کے حربوں سے کام نہیں لیتے تھے۔سیدھی سادی بات اس انداز اور اعتماد سے کہتے کہ بات دل میں اتر جاتی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے استریچی ہال میں اسلامی فقہ پر انگریزی میں ان کی جو تقریریں ہوئیں، وہ اتنی مدلّل ، پرمغز اور فکر انگیز تھیں جس نے ان کی قابلیت اور شخصیت کا نقش لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لئے بٹھادیا۔ ان کے مخالفین بھی ان کی علمی تبحر کے قائل ہوگئے۔
ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو غریبوں اور بچوں سے بڑی محبت تھی۔ اپنی صاحب زادی کی شادی کے موقع پر بستی کی سات غریب لڑکیوں کی شادی کروائی۔ ہر طرح کی مال امداد پہنچانے کے علاوہ برابر خبرگیری بھی کرتے تھے۔ علی گڑھ میں ایک مختصر سے قیام کے دوران وہاں کے لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے اتنے پاکیزہ اور قابلِ احترام خیالات و جذبات پیدا کرلئے، وہ انہیں کا حصّہ تھا ۔ رشیداحمد صدیقی کے الفاظ میں ’’وہ چھوٹے بڑے ہر شخص کے لئے اتنے ارزاں اور سہل الحصول تھے جتنی سانس لینے کے لئے ہوا‘‘۔ ہر ایک سے محبت اور عزت سے پیش آنا، لوگوں کے دکھ درد کو حتی الامکان دُور کرنے کی کوشش کرنا، کسی شخص یا جماعت کی ناواجب پاسداری نہ کرنا، یہ تمام اوصاف ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے بلند کردار کی شہادت دیتے ہیں۔
مرحوم کی یاد میں‘کاخلاصہ
یہ مضمون پطرس بخاری نے لکھا ہے۔ آپ کا شمار اردو کے بلند پایہ مزاح نگاروں میں ہوتاہے۔ آپ انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن اردو میں شہرت ہوئی۔ ’’مضامین پطرس‘‘ کے نام سے آپ کے مزاحیہ مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اردو کے مزاح نگاروں میں جو شہرت آپ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔
’’
مرحوم کی یاد میں‘‘ پطرس بخاری کامشہور مضمون ہے۔ اس میں وہ ایک خود غرض دوست کاتذکرہ کررہے ہیں جو اپنے فائدے کے لئے ایک گئی گذری چیز اچھے داموں میں فروخت کرتاہے۔ اس مضمون میں انھوں نے موقع پرستی، مفاد پرستی، خود غرضی، بے وفائی جیسے اخلاق رذیلہ کو ایک کردار میں پیش کرکے بہترین طنز کی مثال قائم کی ہے۔ اس طنزیہ مضمون کے پس پردہ پطرس بخاری سماج کو ایسے مضرت رساں کرداروں سے محفوظ رہنے کاپیغام دے رہے ہیں۔ اس مضمون کاخلاصہ یہ ہے کہ پطرس بخاری کو ایک بائیسکل کی سخت ضرورت تھی۔ ایک دن انھوں نے اپنے قریبی دوست مرزا صاحب سے اس کا تذکرہ کیا۔ مرزا جو نہایت موقع پرست اور چالاک تھا فوراً کہاکہ اس کی ایک بائیسکل ہے وہ چاہیں تو ہی خریدلیں۔ پطرس بخاری کی خوشی کی انتہانہ رہی۔ انھوں نے اپنے پاس موجود چالیس روپئے فوراً مرزا کے جیب میں ڈال دئے اور کہا کہ اگر یہ رقم منظور ہوتو کل بائیسکل بھیج دینا۔ بائیسکل کی خوشی میں رات بھر نیند نہیں آئی۔ رات بھروہ مرزای نیک نفسی اور شرافت کے لئے دعائیں دیتے رہے۔صبح نوکر نے اطلاع دی کہ مرزا نے بائیسکل بھیج دی ہے اور ساتھ ہی ایک اوزاربھی دے گیا ہے۔ انھوں نے نوکر کو بائیسکل کی صفائی کے لئے ہدایات دیں اور جلدہی نہادھوکر بائیسکل میں تفریح کے لئے نکلنے کا منصوبہ بنایا۔ جب پہلی نظر بائیسکل پرپڑی تو حیران ہوئے اور سمجھے کہ کوئی مشین کھڑی ہے۔نوکر سے پوچھا کہ صفائی کیوں نہیں کی؟ نوکر نے کہا کہ تین بار صاف کرچکا ہے۔ آخر بخاری صاحب اس پر سوارہوئے پہلاہی پاؤ ں چلایا تو ایسا معلوم ہواکہ مردہ اپنی مرضی کے خلاف اٹھنے کی کوشش رہاہے۔ تھوڑی ہی دوری پراُترائی تھی۔ یہاں بغیر پاؤں چلائے جب سائیسکل چلنے لگی تو قسم قسم کی آوازیں پیداہونے لگیں۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ مڈگارڈ اور پہیوں سے بھی عجیب آوازیں پیداہورہی تھیں۔ پہیّوں میں بڑے بڑے پیوند بھی لگے تھے جن سے بائیسکل لگاتار اچھلتی بھی تھی۔ راستہ چلتے لوگ اس تماشے کو دیکھ کر تبصرے کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ہینڈل دائیں جانب مڑگیا اور سائیسکل کی گدّی چھ انچ نیچے بیٹھ گئی جس کی وجہ سے پاؤں چلاتے وقت گھٹنے تھوڑی تک پہنچ رہے تھے اور کمر باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ اسی درمیاں اوزارکاخیال آیا تو اترکرگدی درست کی اور ہینڈل ٹھیک کیا۔ اب سوارہوکر دس قدم بھی نہیں بڑھے تھے کہ ہینڈل نیچے اتر گیا اور کچھ ہی دیر بعد گدّی بھی نیچے اترگئی۔ پریشان ہوکر انھوں نے کسی میکینک کو بائیسکل دیکھانے کافیصلہ کیا لیکن کوئی اس کے قریب بھی آنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک شخص جو مشکل سے تیارہوا اُس نے جائزہ لینے کے بعد کہا کہ پندرہ دن کا کام ہے اور چالیس روپئے اجرت ہوگی۔ تنگ آکر پطرس بخاری اس بائیسکل کو بیچنے کی خاطر ایک اور میکینک کے پاس لے گئے جس نے خوب سوچ بچار کے بعد اس کی قیمت تین روپئے مقرر کی۔ غصّے کے عالم میں دوبارہ سائیسکل پرسوارہوکرانھوں نے جوپاؤں چلائے تو اگلے پہیے جدا ہوکر سڑک کے اُس پار جاگرے او رپطرس زمین پر گرپڑے۔ اب انھوں نے اس پہیے کو ایک ہاتھ میں اور باقی ماندہ سائیسکل دوسرے ہاتھ میں لے کر پیدل چلنے لگے اور آبادی سے باہر نکل کر ایک ند ی کے پل پر سے ایک ایک پہیہ دریا میں پھینک دیا اور سیدھے مرزا کے مکان پرپہنچے اور وہ اوزار ان کے حوالے کردیا اور کہاکہ اس سے آپ ہی شوق فرمائیے اب مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
شکوہ‘ کا خلاصہ
علامہ اقبالؔ کی نظم ’’شکوہ‘‘ مشرقی ادب کا ایک عظیم شاہکارہے۔ شکوہ اور شکایت کابیان بھی شاعری میں اہمیت رکھتاہے کیوں کہ اس کا تعلق بھی انسانی فطرت سے بہت گہرا ہے۔ اردو کے بعض شاعروں نے بھی اس طرف توجہ دی ہے لیکن اقبال کے شکوے کے سامنے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ شکوے کا موضوع ملت اسلامیہ کا عروج و زوال ہی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس نظم میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی تصویر کشی اس پر شکوہ انداز میں کی ہے کہ اس نظم کو پڑھ کر فخر و اعتماد کااحساس ہوتاہے اور حرکت و عمل کی تحریک ہوتی ہے۔
اقبالؔ نے یہ شاہکار نظم ۱۹۰۹.ء میں انجمن حمایت الاسلام کے جلسے میں پڑھ کر سنائی تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب عالمِ اسلام میں ابتری پھیلی ہوئی تھی اور مسلمانانِ عالم کے سروں پر مصائب کے بادل منڈلارہے تھے۔ اقبالؔ اس صورتِ حال پر بہت بے چین تھے اور ایسی کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی تھی جو مسلمانوں کو اس ادبار سے نکال سکے۔ جب انسان ہر طرف سے مایوس ہوتو اس کی نظریں صرف اسی کی طرف اٹھتی ہیں جو کارساز ہے اور بگڑی بنادیتاہے۔ چنانچہ اقبالؔ نے مسلمانوں کامقدمہ حق تعالیٰ شانہٗ کی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا جو سب عدالتوں سے بالاترہے۔ اقبالؔ اپنے موضوع کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اس لئے انھوں نے شکوے کاآغاز مناسب عذر و معذرت کے ساتھ کیاہے۔
شکایتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ اے خدا! ہم نے تیرے نام کو بلند کرنے اورتیرے دین کو دنیا کے دوردراز گوشوں میں پہنچانے میں بڑی جدوجہد کی ہے۔ دنیا میں بیسیوں تو میں آباد تھیں مگر ہمارے سوا کوئی اس میدان میں سرگرمِ عمل نہ تھا۔ ہم نے خشکی اور تری میں معرکہ آرائی کی اور ہر جگہ تیرے نام کو سربلند کیا۔ ہم نے صفحۂ ہستی سے باطل کومٹادیا۔ غلاموں کاخاتمہ کردیا۔ کعبے میں سجدے کئے اور تیرے قرآن کو سینے سے لگایالیکن ہماری ان خدمتوں کاتونے کیاصلہ دیا۔ اس کے بعد شاعر کا دل بے قابو ہوجاتاہے۔ وہ کہتاہے کہ ستم تو یہ ہے کہ کافر کو تو اسی دنیا مین دنیا جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں اور مسلمان سے صرف جنت کاوعدہ کیاجاتاہے۔ تیرے نام پر مرمٹنے کا ہمیں جو صلہ ملا ہے وہ ہے ذلت و خواری۔ اس کے بعد لہجہ ذرا بدلتاہے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی شروع ہوتاہے کہ بلاشبہ ہم بھی پہلے سے نہیں رہے اور وفاداری کاپہلا ساانداز بھی باقی نہ رہا۔ پھر اپنی کوتاہیوں کے مزید اعتراف کے بعد لہجہ بالکل عاجزانہ ہوجاتاہے۔ شکوے کازور آہستہ آہستہ ٹوٹتا نظرآتاہے۔ شاعر کے لہجے میں نرمی پیداہوتی چلی جاتی ہے اور یہ نرمی نظم کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے دُعا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
شکوے کاشمار اگرچہ اقبالؔ کی ابتدائی نظموں میں ہوتاہے لیکن یہ نظم اپنی جگہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ایک اسلامی شاعرکی حیثیت اقبالؔ کی شہرت میں اس نظم کابڑاحصہ ہے اسے اقبالؔ کی عظیم نظموں کامقدمہ کہاجاسکتاہے۔یہ نظم مسدس کی حیثیت میں لکھی گئی۔ مسدس میں تسلسل بیان کی زیادہ گنجائش اوراظہار خیال کی زیادہ آزادی ہے ۔ بات کو سہولت سے ادا کرنے کے لئے انھوں نے مسدس کافارم اختیار کیا۔ صنائع بدائع کے استعمال سے نظم کی دلکشی بڑھی ہے۔ خوبصورت فارسی آمیز ترکیب سے نظم کے حسن میں اضافہ ہواہے۔ پیکر تراشی کے اچھے نمونے بھی اس نظم میں موجود ہیں۔ نظم میں جوش اور جذبے کی فراوانی ہے۔ شعری محاسن پوری نظم میں موجودہے۔ درمیان کے بہت سے بند بھی دلکش ہیں اور انھیں فن کاری کااچھا نمونہ کہاجاسکتاہے۔ خوش آہنگی نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ’’شکوہ‘‘ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ اس کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔


جوابِ شکوہ‘کا خلاصہ
نظم ’’جواب شکوہ‘‘ دراصل شکوہ کا نتیجہ ہے۔ اقبالؔ نے شکوہ میں جو کچھ کہاہے جواب شکوہ میں اس کا حرف بحرف جواب دیاگیاہے۔ شکوے شکوہ ان کہلوایاگیا۔ شکوہ میں بعض جگہ اقبالؔ کالہجہ زوردار بے باک ہوگیاتھا۔ اس سے بعض حلقوں میں ان کے بارے میں غلط فہمی پیداہوگئی تھی۔ اقبالؔ پرشانِ خداوندی میں گستاخی کاالزام لگایا گیا۔ کفر کے فتوے دئے گئے۔ شکوہ کے دو سال بعد اقبالؔ نے زیرتجزیہ نظم جوابِ شکوہ لکھی توہرطرف سے دادوتحسین کاغلظہ بلند ہوا۔ اس نظم کو الہامی قراردیاگیا۔ ایک ایک شکوہ اور شکایت کااس نظم میں مدلل جواب دیاگیاہے۔ پہلی نظم میں مسلمانوں کی زبوں حالی کاذکر تھا تو اس نظم میں وہ نسخۂ کیمیا موجود ہے جومسلمانوں کے درد کادرماں اور مصیبتوں کاعلاج ہے۔ دراصل اقبالؔ مسلمانوں کوان کی پستی اور اس کے اسباب سے آگاہ کرکے انھیں ذلت سے نکالنا چاہتے تھے۔اس کے لئے انھوں نے شکوہ اور جواب کی دلچسپ تکینک استعمال کی۔ ظاہر ہے کہ انسان کے سوال اور خدا کے جواب سب شاعر کے تخیل کاکرشمہ ہیں۔ وہ اپنا پسندیدہ طریقہ اختیار کرناہے اور اپنے خیالات خداوندتعالیٰ کی زبان سے ادا کردیتاہے تاکہ ان میں وزن اور وقار پیدا ہوجائے اور مسلمان ادھر متوجہ ہوں۔
جواب شکوہ کاخلاصہ یہ ہے کہ شاعر کی فریاد میں کچھ ایسی تاثیرہے کہ وہ آسمان کی بلندیوں تک جاپہنچتی ہے۔ فرشتوں کو انسان کی جرأت وبیباکی پسند نہیں آتی مگر اللہ تعالیٰ شانہٗ اسے سنتاہے اور جواب میں فرماتاہے کہ مسلمان اپنی زبوں حالی کے آپ ہی ذمہ دارہیں۔ حالت یہ ہے کہ تمھارے بازو طاقت سے محروم اور دل ہماری محبت سے خالی ہیں۔ بے شک تمھارے بزرگوں نے ہمارے نام کو سربلند کیامگر ان کی خوبیاں تم میں موجود نہیں۔ہم پر الزام یہ ہے کہ ہم غیروں کونوازتے ہیں اور مسلمان سے محض جنت کا وعدہ کرتے ہیں۔ جن کاموں کی توقع مسلمان سے تھی، اگروہ غیر کرے گا تو انعام و اکرام سے کیوں نہ نوازا جائے گا۔ آج مسلمان فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہیں۔ غریب کسی حدتک ہماری طرف متوجہ ہیں مگر امیروں کو دولت کے نشہ نے گمراہ کردیاہے۔ اس لئے ان کے اقبال کاسورج غروب ہوگیا۔
اس کے بعد حق تعالیٰ شانہٗ عفوودرگذر کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ لہجے میں نرمی پیداجاتی ہے، فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں ابراہیمؑ کاساایمان پیداہوجائے تو آج بھی آگ ان کے لئے گلزار بن جائے گی۔ پھر ارشاد ہوتاہے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ چاروں طرف سے تجھ پر جو بلاؤں کا نزول ہے، یہ تجھے ہوش میں لانے کے لئے ہے۔ تجھ کو کوئی مٹانہیں سکتا۔دنیا کوتیری ضرورت ہے اور تجھے دنیا کی سربراہی کافرض انجام دیناہے اور اگر تو نے یہ کردیاتو ع
یہ جہاں چیزہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
شکوہ کی طرح جوابِ شکوہ میں بھی مسدس کی ہیئت اختیار کی گئی ہے۔ اقبالؔ اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول اور دلفریب بناکر پیش کرناچاہتے ہیں۔ اس کے لئے سب سے موزوں مسدس تھی۔ یہ نظم صراحت و وضاحت کاتقاضاکرتی ہے۔ شاعرنے اسی لئے واضح او رمدلل اسلوب اختیارکیاہے۔ ہرہرمصرع میں جوش و جذبے کی فراوانی ہے۔ استعارہ وتشبیہ کی عمدہ مثالیں بھی نظم میں کثرت سے موجود ہیں۔ یہ نظم ایک طویل مکالمہ ہے اس لئے عام فہم گفتگو کی زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔ یہ نظم علامہ اقبالؔ کاایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ اور صدیوں تک زندہ رہے گا۔
تاج محل‘کا خلاصہ
تاج محل پر اردو میں کئی شاعروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ جو صرف اس کی تحسین تک محدود ہیں۔ ان میں سے صرف دو نظمیں اردو شاعری میں اپنا مقام بناسکی ہیں۔ ایک ساحرؔ لدھیانوی کی اور دوسرے سکندرعلی وجدؔ کی۔ وجدؔ نے ایک حسین و دل فریب فنکارانہ تخلیق کی تحسین اس انداز میں کی ہے کہ یہ تحسین بجائے خود ایک دلکش اور حسین تخلیق بن گئی ہے۔ سکندر علی وجدؔ کے برخلاق ساحرؔ لدھیانوی نے جو نظم لکھی اس میں تاج محل کے جمال و زیبائی کو اپ نا موضوع نہیں بنایا۔ شاعر کے نزدیک تاج محل کی اہمیت صرف اس قدر ہے کہ وہ شہنشاہوں کی بنائی ہوئی عمارتوں میں سے ایک عمارت ہے۔
اپنی اس انقلاب آفریں نظم ’’تاج محل‘‘ میں ساحرؔ لدھیانوی نے غریبوں، مزدوروں اور پس ماندہ لوگوں کی وکالت کرتے ہوئے ہندوستان کی ایک عظیم الشان قومی یادگار کے خلاف کسی قدر تلخ خیالات کامظاہر کیا ہے۔ اس نظم میں دو کردار ہمارے سامنے آتے ہیں۔ شاعر اور اس کی محبوبہ۔ دونوں نچلے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاعر کی محبوبہ تاج محل کی گرویدہ ہے۔ وہ اسے شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لافانی محبت کی یادگار سمجھتی ہے۔ اس کے نزدیک شاہ جہاں اور ممتاز محل کی حیثیت بادشاہ اورملکہ کی نہیں بلکہ شیریں و فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کی طرح دو محبت کرنے والے وجود کی ہے۔ چوں کہ تاج محل کے قرب سے اسے تسکین ملتی ہے اس لئے وہ چاہتی ہے کہ اس کا اپنا محبوب اس سے اس وادئ رنگین میں ملاقات کرے۔ تاج محل کو اپنی محبت کی یادگار بنانا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری تفصیلات شاعر نے نظم میں بیان نہیں کی ہے لیکن نظم کا ابتدائی شعر تاج محل کے تعلق سے محبوبہ کے ان تاثرات تک ہمیں پہونچا دیتا ہے ؂
تاج تیرے لئے ایک مظہرِالفت ہی سہی
تجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
اس کے ساتھ ہی اس شعر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا زاویۂ نظر اپنی محبوبہ سے بالکل ہی برعکس ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ شاہ جہاں کی طرح وہ بھی ایک عاشق ہے لیکن اپنے عشق کی تشہیر کے لئے وہ ایک ایسی عظیم اور خوبصورت عمارت کی تعمیر نہیں کرواسکتا کیوں کہ وہ غریب ہے۔ سیاسی اور سماجی طورپر اگر وہ باشعور نہ ہوتا تو شاید یہ خیال اسے شدید احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ،لیکن وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جذبۂ عشق اگر سچا ہوتو اسے کسی دکھاوے اور نام و نمود کی ضرورت نہیں۔ وہ جب بھی تاج محل کو دیکھتا ہے یہی احساس اُسے ستانے لگتا ہے اس لئے وہ اپنی محبوبہ سے کہتا ہے کہ وہ اس سے تاج محل کے بجائے کسی او ر جگہ ملاکرے،وہ اپنی محبوبہ کے جذبات کو ٹھیس بھی پہونچانا نہیں چاہتا ، اس لئے اپنے نقطۂ نظر کو مدلّل طریقے سے پیش کرتاہے تاکہ محبوبہ بھی اس کی ہم خیال بن جائے۔
اس نظم کے پہلے بند میں شاعر اُسے یہ احساس دلاتا ہے کہ تاج محل کی نواح دراصل بزم شاہی ہے اور اس میں غریبوں کا کوئی کام نہیں۔ وہ اس کی توجہ تاج محل کے حسن اور اس سے متعلق جذبۂ عشق سے ہٹاکر سطوتِ شاہی کے نشانوں کی طرف مبذول کراتا ہے۔ جو وفاکی تشہیر کے پردے میں چُھپے ہوئے ہیں۔عام انسانوں کا گذر اس راستے میں کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ شاعر اپنی محبوبہ کو جو تاج محل کو محبت کی لافانی یادگار سمجھ کر اس کی دلکشی سے مسحور ہوگئی ہے، یہ احساس دلاتا ہے کہ اس مقبرے کے مقابل میں اس کا اپنا مکان کس قدر تنگ و تاریک ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ مقبرہ محل کی طرح شاندار ہے اور گھر لحد کی طرح تنگ و تاریک ۔لہٰذا یہ سطوت کے نشان کوئی معنی نہیں رکھتے۔
تاج محل کو دیکھ کر اس کی خوبصورت یا شاہ جہاں کے جذبۂ وعشق سے متاثر ہونے کے بجائے وہ یہ سوچتا اور محسوس کرتا ہے کہ یہ عمارت ایک شہنشاہ نے تعمیر کروائی ہے۔ اس عمارت پر جو کڑوڑوں کا خرچ ہوا ہے وہ غریب عوام سے وصول کی ہوئی دولت ہے۔ اب شاعر ان مزدور کی وکالت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا میں محبت کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ جنھوں نے شہنشاہ کے حکم پر گرمی، برسات اور جاڑوں کی شدت برداشت کرتے ہوئے تاج محل کی تعمیر کاکام پوراکیا۔ ان کی اپنی محبوبائیں بھی تھیں، ان کی اپنی محبت کے جذبے صادق تھے لیکن غربت اور مفلسی کی وجہ سے وہ اپنی محبت کی تشہیر نہیں کرسکتے تھے۔
تاج محل کی تحسین کرتے ہوئے عام طور پر اس کے دوپہلوؤں کو نمایاں کیا جاتاہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ ہے دوسرے یہ کہ وہ محبت کی ایک یادگار ہے ۔ ساحرؔ کی نظر میں یہ دونوں اوصاف ایسے نہیں ہیں کہ ان کی بنا پر تاج محل کو سراہا جائے۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں طنز اور استہزا سے کام لے کر دل کو چُھوٗ لینے والی یہ جذباتی دلیل پیش کرتا ہے کہ جن مزدوروں کی صناعی نے اسے شکلِ جمیل بخشی ، انھیں بھی محبت تھی لیکن ان کے مقبرے بے نام و نمود رہے اور آج تک کسی نے ان پر قندیل تک نہیں جلائی۔ آخرمیں شاعر اپنی محبوبہ پر یہ واضح کرناچاہتا ہے کہ تاج محل لافانی محبت کا حسین وجمیل نقش نہیں ہے بلکہ ؂

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارالے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

صبحِ آزادی‘کا خلاصہ
فیض احمد فیضؔ ایک ممتاز ترقی پسند شاعر ہیں۔اگرچہ شاعر میں اُن کا سرمایہ بہت کم ہے لیکن پھربھی اتنی کم مقدارپر کسی ترقی پسند شاعر کو اتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی فیضؔ کو ملی۔ان کے مجموعۂ کلام میں انہیں گوناگوں خوبیوں کی بدولت بہت جلد عالمی مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ ان کی زبان نہایت صاف اور سنجیدہ ہے اپنی بات سیدھے سادے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ ۱۹۴۷.ء میں برصغیرِ پاک وہندمیں جب آزادی کی صبح نمودارہوئی تو اُس کا خیرمقدم کرتے ہوئے فیضؔ نے صبحِ آزادی کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس نے لوگوں کو چونکایابھی اورمتاثربھی کیا۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ اس میں انگریزی شاعر آڈن کی استعمال کی ہوئی ایک ترکیب ’’ پنکچرڈنائٹ‘‘ کی بازگشت ہے۔ اس نظم سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔
فیضؔ نے یہ نظم ہندوستان کی آزادی کے پس منظر میں لکھی ہے۔ اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے ملک کے رہنماؤں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔اپنے راتوں کی نیند اور دن کاچین حرام کیا ہے، قیدوبند کی مصیبتیں برداشت کیں، اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور ہنستے ہوئے موت کامقابلہ کیا اور یہ سب اس امید کی بناپر تھا کہ جب ملک آزاد ہوگا تو ہر طرف خوشیوں اور مسرتوں کاراج ہوگا ،اہلِ وطن کی امیدیں بھرآئیں گی اور سب ہندوستانی مل جل کر وطن کی تعمیر اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔ اس طرح اپنا اور اپنے ملک کاوقاربڑھے گا اور دنیا کی نظروں میں ہندوستان سربلندہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ آزادی پوری خود مختاری کے ساتھ ملی تھی لیکن جس طرح ہند نے اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے یہاں ایک جمہوری آئینی نظام قائم کیا، زمیندارانہ نظام کو توڑا اور کچھ اصطلاحات سماجی زندگی کے تعلق سے نافذکیں اس طرح کا سماجی آزادی کا کوئی عمل ہمارے یہاں اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہیں کیاگیابلکہ رہی سہی جمہوریت کا بھی چند ہی برسوں میں گلا گھونٹ دیاگیا۔ لہٰذاملک آزاد ہونے کے بعد ہر طرف فتنہ و فساد شروع ہوگیا۔ ہندوستان کی تقسیم نے یہاں کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا ایک طویل سلسلہ شروع کردیا۔ دونوں ملکوں کے لیڈوں نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تعمیل کے لئے ملک کو لوٹناشروع کردیا۔ ہرشخص اپنی دنیا بنانے میں لگ گیا۔ لہٰذا وہ توقعات آزادی سے پوری نہ ہوئیں جو اس کے ساتھ وابستہ کی گئی تھیں۔ اس لئے آزادی کے وہ صبح داغ دار ہی نظرآئی۔ اس کے طلوع ہونے پر پرانے سماجی رشتے تبدیل نہ ہوئے اور سیاست بدستور انہیں کے ہاتھوں میں رہی جو آزادی کی جدوجہد میں عوام کے ساتھ نہ تھے۔ ان واقعات نے فیضؔ کے دل پر بہت گہرااثرکیا اور انھوں نے اپنے تاثرات کو اس نظم میں قلم بندکیاہے۔ جس کااحاطہ ہم ذیل میں کئے دیتے ہیں۔
اگر چہ کہ آزادی کی صبح طلوع ہوگئی ہے لیکن اس کا اجالا صاف اور بے داغ نہیں ہے ، ہر طرف داغ دھبے دکھائی دے رہے ہیں اور اس صبح پر غم کی سیاہ راتوں کااثرباقی ہے، معلوم یہ ہوتاہے کہ یہ وہ سحرنہیں ہے جس کاہم انتظار کررہے تھے ۔ہم ایک حسین صبح کے آرزو لے کرنکلے تھے کہ وہ کہیں نہ کہیں مل جائے گی لیکن رات ختم ہونے کے باوجود وہ اب تک نہیں آئی۔
جب ہم صبح کی تلاش میں نکلے تو ہمارے دامن میں کتنے ہی ہاتھ پڑے ، بہت سی بانہیں پکارپکارکرہمیں بلاتی رہیں، حسینوں کی محبت نے ہمارے راستے میں روڑے اٹکائے لیکن ہم نے وطن کی آزادی کی خواہش پر حسن و محبت اور عشق و جوانی کی ساری مسرتیں قربان کردیں ، اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیا اور سب کو ٹھکراکر وطن کو آزاد کرنے نکل پڑے۔
اب جب کہ ہم آزادی حاصل کرچکے ہیں ہمارا کارواں منزل پر پہنچ چکا ہے۔ ہماری قربانیاں رنگ لاچکی ہیں، خوشیاں اور مسرتیں دامن پھیلارہی ہیں، جدائی کا زمانہ ختم ہوچکاہے لیکن ان سب کے باوجود ہم محسوس کررہے ہیں کہ ابھی حقیقی سویرا طلوع نہیں ہواہے۔ آزادی تو حاصل ہوچکی ہے لیکن دل و دماغ کی تاریکی کادور ابھی ختم نہیں ہواہے۔لہٰذا شاعر اپنے ساتھیوں سے خطاب کرکے کہتاہے کہ ابھی چلتے رہو کیوں کہ ہم لوگوں نے جس حسین اور آزاد منزل کی تمناکی تھی وہ ابھی نہیں آئی ہے۔


تشریح کے چند نمونے
میرانیسؔ کی پہلی رباعی:
انیسؔ نے اس رباعی میں قدرتِ خداوندی کی کرشمہ سازیوں کا بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ کی لازوال قدرت اور عقل کو حیران کردینے والی عظیم تخلیقی قوت اس وسیع و عریض کائنات کے ہر ذرے میں نظر آتی ہے۔ گلشن و صحرا میں، جنگل و بیابان میں، دریاؤں اور آبشاروں میں حق تعالیٰ شانہٗ کی قدرت کی اَن گنت نشانیاں نظرآتی ہیں اور انسان اپنی محدود بصارت یعنی اپنی دو آنکھوں سے بے شمار جلوؤں کے نظارے کے لئے ناکافی ہیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ کی بنائی ہوئی کائنات اتنی وسیع اور ہمہ گیر ہے اور اس میں قدرت کے اتنے جلوے نظرآتے ہیں کہ انسان محض اپنی دو آنکھوں سے کیاکیا نظارے دیکھ سکتاہے۔ اس رباعی میں شاعرنے انسان کی کم مائیگی اور اس کے محدودوسائل کو بیان کیاہے۔

اکبرؔ الہٰ آبادی کی پہلی رباعی:
اکبرؔ نے اس رباعی میں زندگی کے ایک اصلاحی پہلو کی وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی بے کار مشغلوں اورلہو و لعب میں برباد نہیں کرنی چاہئے۔حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کے اندرجواستعداد اور صلاحتیں رکھی ہیں یہ کسی اونچے مقصد اور اعلیٰ منزل کے حاصل کرنے میں استعمال ہونی چاہئے۔ انسان کی بڑائی اور عظمت کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو دسروں کی فلاح و بہبودی کے کام میں لگائے اور اگر کوئی ایسانہ کرسکے تو کم سے کم دوسروں کو نقصان پہنچانے سے تو احتراز کرے۔ اس لئے کہ افعالِ مضر سے کچھ نہ کرنا بہترہے۔ دوسروں کواذیت پہنچا کربدنام اور ذلیل ہونے سے بہتر یہی ہے کہ آدمی اس دنیا سے چلا جائے۔ اہلِ غیرت کاحوالہ دیتے ہوئے اکبرؔ نے کہا ہے کہ دنیا میں جینا چاہتے ہو تو عزت کے ساتھ جیؤ ورنہ بے غیرتی کی ذلیل زندگی سے موت بہترہے۔

امجدؔ حیدرآباد کی پہلی رباعی:
اس رباعی میں امجدؔ نے زندگی کے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیاہے۔ آدمی کی زندگی برائے نام نہ ہو۔ اس لئے کہ اس قسم کی بے مقصد زندگی ، زندگی کہلانے کے قابل نہیں ہے ۔ زندگی خداکی دی ہوئی ایک امانت ہے اس لئے اس کاصحیح مصرف ہوناچاہئے۔اگر اپنے اعمال و افعال سے فرشتہ بننا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرے۔نیکی کرنا بہت اچھا ہے لیکن جب کسی سے کوئی نیکی ممکن نہ ہوسکے تو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ برائی سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی پورا کمال حاصل نہ کرسکے تو اس سے مایوس ہوکرتھوڑا بہت کمال حاصل کرنے سے بھی نہ رہ جائے۔ اس رباعی کے ذریعہ شاعر نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگرکوئی اپنے اخلاق و اعمال سے ایک متقی مومن نہیں بن سکتا تو اسے چاہئے کہ ایک اچھا مسلمان توبنے۔

اصغرؔ ویلو ری کی رباعی:
اصغرؔ ویلوری نے اس رباعی میں معاشرے کے اس رخ کو پیش کیاہے جہاں 
صرف دھوکہ ، فریب اور نقلی چہرے نظر آتے ہیں۔ صداقت، سچائی اور اخلاص کا اس زمانے میں فقدان ہے بلکہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کتابوں میں بھی صداقت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی اور 
صرف افسانہ طرازی کے حقیقت نہیں ملتی۔ معاشرے کے افراد اس قدر خود غرض اور منفعت پسند ہوچکے ہیں کہ ہر چہرہ پر انھیں نقلی چہرہ ہی نظرآتاہے۔ انسانیت کاجوتصور اور اصلی نقش شاعر کے ذہن میں موجود ہے کسی فرد بشر میں اس کا عکس نظر نہیںآتا لہٰذا شاعر کو اس بات کاملال ہے کہ اب معاشرے میں صداقت اور سچائی معدوم ہوتی جارہی ہے اور جھوٹ اور فریب زورپکڑتا جارہاہے۔

کفن کا خلاصہ
پریم چند اردو فکشن کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ انھوں نے فن افسانہ نگاری کو کمالِ عروج تک پہنچادیا۔ ورنہ پریم چند سے پہلے اردو افسانہ فنی اعتبار سے نہایت خام حالت میں پایاجاتاتھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پریم چند کے بعد بھی اردو افسانہ پریم چند کی روایت کو آگے تک نہ لے جاسکا۔ پریم چند نے پہلی بار اردو افسانے میں زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کیں۔ انسانی زندگی کے پیچیدہ مسائل، رموز اور نکات افسانے کا موضوع بننے لگے۔ اب قاری کو میٹھی میٹھی کہانیاں سنا کر سُلانے کا وقت نہیں رہاتھا بلکہ زندگی کی کڑوی حقیقتوں سے انھیں آشنا کرانا ضروری تھا۔ کیوں کہ دنیا کے چپے چپے میں انقلاب اٹھ رہے تھے اور حالات تیزی سے پلٹا کھارہے تھے۔ لہٰذا پریم چند نے زمانے کی اِ س روش کا بروقت احساس کیا اور اپنی افسانہ نگاری میں انسانی زندگی کے تمام تاریک اور روشن پہلوؤں کو سمیٹا، سماجی ناہمواریوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور ان تمام مسائل کو اپنے افسانوں کاموضوع بناکر اپنے قارئین کے ذہنوں میں کئی سوال کھڑے کئے۔ تاکہ لوگ ان کی یکسوئی تلاش کرسکیں۔
پریم چند کے افسانوں میں ’’کفن‘‘ کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے بلکہ بعض نقادوں نے اسے اردو افسانہ نگاری کا شاہکار بھی قراردیاہے۔یہ ایک گراں قدر ادب پارہ توہے ہی مگر اس کی مقبولیت کاایک اور سبب یہ بھی ہے کہ آج ستّر سال سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود اس کی معنویت میں کمی نہیں آئی ۔اس طرح پریم چند کا یہ افسانہ ایک زندہ افسانہ کہلائے گا۔
’’
کفن‘‘ فنی اور تکنیکی اعتبار سے ایک مکمل افسانہ ہے۔ تأثر کی وحدت جو افسانے کی سب سے بنیادی اور اہم ضرورت تسلیم کی گئی ہے افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ افسانے کا پلاٹ مضبوط اور مربوط ہے۔ قصّے کا تانا بانا دیہاتی پس منظر میں تیار کیاگیاہے جو کیف وکمیت سے بھرپور ہے۔ نچلے طبقے کے لوگوں کی نفسیات اور سماجی رشتوں کی جزئیات کاحقیقت پسندانہ اظہار ہمیں اس افسانے میں ملتاہے۔ کردار نگاری نہایت عمدہ اور جاندار ہے۔ اس کے کردار گھیسو اور مادھو اردو ادب کے چند مقبول و معروف کرداروں میں سے ہیں۔ ان کرداروں کاتأثر اتنا گہرا ہے کہ جلد قاری کے ذہنوں سے محو نہیں ہوسکتا۔
’’
کفن‘‘ کے مکالمے پس منظر کی مناسبت سے دیہاتی لب و لہجہ میں لکھے گئے ہیں اور افسانے کی جان قراردئے جاسکتے ہیں۔ پریم چند کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ خاص طورسے دیہاتیوں کی آپسی گفتگو اور مباحثوں کو وہ من و عن نقل کرسکتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی ’’گھیسو‘‘ اور ’’مادھو‘‘ کے درمیان لمبے مکالموں سے ان کرداروں کی توضیح ہوتی ہے اور انھیں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ پریم چند کی زبان، مکالموں، منظر کشی اور جزئیات نگاری سے افسانے کا مجموعی تأثر قائم ہوتاہے۔ 
’’
کفن‘‘ موضوعاتی اعتبارسے چماروں کی بستی کے دو ایسے کرداروں کا قصّہ ہے جو انتہائی کاہل اور نکمّے ہیں۔پریم چند نے ان کرداروں کوایک ایسے جذباتی اور کربناک موڑسے گزارا ہے جو کسی بھی عام انسان کے اعصاب کو جھنجوڑ کررکھ دے۔مگر اس موڑ پر بھی اِن کرداروں کی بے حسی دکھاکر ثابت کیاہے کہ انسان کی گراوٹ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سماج میں ایسے بھی افراد ہیں جنھوں نے اپنی بنیادی حیثیت یعنی انسان ہونے تک کو فراموش کردیاہے۔ اس سے بڑھ کر انسانی رشتوں اور قدروں کی پامالی اور کیاہوسکتی ہے کہ ایک شوہر اپنی بیوی کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہوادیکھے اور اس کی آہیں اور کراہیں سنتارہے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو۔ حتّٰی کہ اس کے مرجانے پربھی اس کے مزاج میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔ انتہا یہ کہ اُس کے کفن کے لئے لوگوں سے بھیک مانگے اور اُن پیسوں سے عیاشی کرے اور گھر میں لاش پڑی سڑتی رہے۔
’’
کفن‘‘ کے یہ دونوں کردار بہ یک وقت کئی اخلاقی برائیوں کاشکارہیں۔ قاری جیسے جیسے افسانہ پڑھتاجاتاہے اس کے واقعات سے اُس پر اِن کرداروں کی حقیقت خود بخود آشکار ہونے لگتی ہے۔ پریم چند کو الگ سے انھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مکالمے خود شخصیت کا تعارف کرانے لگتے ہیں۔ مثلاً ’’مادھو‘‘ کایہ جملہ ملاحظہ فرمائیے:
’’
بڑی اچھی تھی بچاری۔مری بھی تو خوب کھلاپلاکر‘‘
اس افسانے میں پریم چند نے سماج کے اُن ناسوروں کی طرف نشاندہی کی ہے جو پورے سماج کے لئے خطرے کی گھنٹی بنے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے گھیسو اور مادھو جیسے کردار ہمارے سماج کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ جسم کے اُن اعضاء کی طرح ہیں جو گل سڑھ گئے ہیں اُن کی موجودگی سے تمام ہی جسم کے لئے خطرہ پیداہوگیا ہے۔ یہ سماج پربوجھ بنے ہوئے ہیں اور سماج اُن کے گناہوں کا کفارہ اداکرنے پرمجبور ہے۔’’کفن‘‘ کے نام پر پیسہ وصول کرکے یہ عیاش کریں اور سماج اُس لاش کو ٹھکانے لگانے پر مجبور ہو۔
غرض پریم چند نے باپ اور بیٹے کو جرم میں شامل کرکے اور ایک دوسرے کی معاونت دکھاکر یہ ثابت کیاہے کہ یہ سلسلہ اب نسل ہانسل تک جاری رہے گا۔

بڑے گھر کی بیٹی ‘کا خلاصہ
منشی پریم چند کاشمار اردو کے اولین اور صاحب طرز افسانہ نگاروں میں ہوتاہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں گاؤں کی زندگی، وہاں کے لوگوں کے عادات و اطوار اور ان کے جذبات و خیالات کومواد بناکر پیش کیاہے۔ پریم چند کودیہات اور دیہاتی زندگی سے خاص لگاؤ تھااسی وجہ سے انھوں نے اپنے ہرافسانے میں گاؤں کی زندگی کوبہت سراہا ہے۔ افسانہ ’’بڑے گھرکی بیٹی‘‘ میں بھی انھوں نے گاؤں کی زندگی اور خاص طورپر مشترکہ خاندان سے اپنی محبت کااظہار کیاہے۔ اس افسانے کے ذریعے انھوں نے اس بات کی نشان دہی بھی کی ہے کہ ایک مشترکہ خاندان کو ٹوٹنے اور تباہ ہونے سے بچالینا شریف اور نیک لوگوں کاکام ہے۔
گوری پور کے زمیندار بینی مادھوسنگھ کے دوبیٹے تھے۔ بڑابیٹا سرکنٹھ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مٖغربی طرزِزندگی اور معاشرت سے نفرت کرتاتھا۔ اسی بات پرگاؤں کے لوگوں میں اس کی بڑی عزت تھی لیکن گاؤں کی اکثر عورتیں دل ہی دل میں سری کنٹھ سے ناراض تھیں اور اس ناراضگی کی خاص اور واحد وجہ یہ تھی کہ وہ ہندومشترکہ خاندان کازبردست حامی ہے۔ جب کبھی اس کے دوست احباب یاگاؤں کاکوئی فرد اپنے ہی خاندان والوں سے لڑتے جھگڑتے یا جب وہ اپنی بیویوں کی باتوں میں آکر الگ گھر بسانے کی خواہش ظاہر کرتے تو سری کنٹھ ان لوگوں کو اتنا ڈانٹتاکہ وہ اپنے اس فعل پرنادم ہوکر رہ جاتے۔ اس طرح اس نے گاؤں کے بہت سارے خاندانوں کو منتشر ہونے سے بچالیا تھا۔
سرکنٹھ کی بیوی آنندی ایک شریف خاندان سے تعلق رکھنے والی نیک سیرت عورت تھی۔ بڑوں کی عزت اور ادب و احترام کو وہ ہر بہو بیٹی کااہم فریضہ سمجھتی تھی۔ چنانچہ وہ ایک رئیس زادی ہونے کے باوجود سسرال میں آکر وہاں کے لوگوں میں اس طرح گھل مل گئی تھی کہ نہ صرف گھر کے تمام افراد اسے دل وجاں سے چاہنے لگے تھے بلکہ گاؤں والے ببھی اسے عزت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔
ایک دن سری کنٹھ کاچھوٹا بھائی لال بہاری سنگھ بازار سے مرغی لایا اور اپنی بھابی سے اس کا گوشت پکانے کی فرمائش کی۔ گھر میں پاؤ بھرسے زیادہ گھی نہیں تھا لہٰذا آنندی نے سارا گھی گوشت میں ڈال دیا۔ جب لال بہاری کھانے کے لئے بیٹھا تودال میں گھی نہ پاکر ا س کی وجہ دریافت کی۔ آنندی نے سچی بات کہہ دی مگر لال بہاری جو پہلے ہی سے بھوکاتھا ، بات سمجھ نہ سکا اور غصّہ کے عالم میں اس نے چند ایسے سخت سست الفاظ کہہ دئے جنہیں سن کر آنندی بھی ناراض ہوگئی۔ بات جب حد سے زیادہ بڑھتی چلی گئی تو لال بہاری نے آنندی پرکھڑاؤں پھینک مارا۔ اس حملہ سے بچنے کی خاطر آنندی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس کی انگلی میں چوٹ آگئی۔ اب آنندی سے رہا نہ گیا وہ چاہتی تھی کہ اپنے شوہر سے لال بہاری کی شکایت کرکے اسے سزادلائے۔
سری کنٹھ ایک دفتر کاملازم تھا اور ہر ہفتہ شننبہ کے دن گھر آیا کرتاتھا۔ اس مرتبہ آنندی بڑی بے تابی سے شوہر کی مننتظر رہی، جب سری کنٹھ آنندی سے ناراض ہوگیا اور اسے تنہائی میں ڈانٹا۔ آنندی جو اس وقت تک شکاتتیں دل میں دبائے تڑپ رہی تھی، شوہر کی ڈانٹ سے بھڑک اٹھی اور اس نے شوہر کو سارا واقعہ کہہ سنایااور اس کی آنکھوں سے آنسوٗ ٹپکنے لگے۔ بیوی کی آنکھوں میںآنسوٗ دیکھ کر سری کنٹھ سے رہانہیں گیا۔ بیوی پر کئے گئے اس ظلم پر اسے رات بھر نیندبھی نہیں آئی۔
جب صبح ہوئی تو وہ اپنے باپ کے پاس گیااور کہاکہ وہ اب اس مکان میں قیام نہیں کرسکتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ ایک الگ گھر بسانا چاہتاہے۔مشترکہ خاندان کے زبردست حمایت کرنے والے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر مادھو سنگھ متحیررہ گئے۔ انھوں نے بیٹے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر سری کنٹھ کسی حالت میں اپنا فیصلہ بدلنے کوتیارنہ تھا۔اسی دوران باپ بیٹے کی گفتگو سُننے اور ان سے لطف اٹھانے کے لئے گاؤں کے لوگ بھی وہاں آکر جمع ہونے لگے۔ بینی مادھو سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ اس بات کی وجہ سے ٹھاکر خاندان کی عزت پربدنماداغ لگے۔ لال بہاری دروازے کی اوٹ سے اپنے بڑے بھائی کی زبان سے دل خراش باتوں کو سن کر اس سے رہانہ گیا۔ وہ روتاہواآنندی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ چوں کہ بڑا بھائی اب اس کا چہرہ دیکھنے سے بھی نفرت کرنے لگاہے لہٰذا وہ خود اب اس گھر میں رہناپسند نہیں کرتا۔ اس نے اپنی بھابی سے معافی مانگی اور وہاں سے نکلنے کی تیاری کرنے لگا۔
آنندی نے شوہر سے شکایت تو کی تھی مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود اس کی وجہ سے گھر میں اتنا بڑاہنگام کھڑاہوجائے۔ وہ دل ہی دل میں بچھتانے لگی۔ اس نے اپنے شوہر سے التجائیں کیں وہ کسی طرح لال بہاری کوباہر جانے سے روک لے۔ جب سری کنٹھ اس کے لئے آمادہ نہیں ہوا تو خود آنندی آگے لپکی اور اپنے دیور کاہاتھ پکڑکر کہنے لگی کہ میں نے تمھیں معاف کردیاہے اور اب مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ بیوی کی زبان سے یہ جملہ سن کر سری کنٹھ کاغصّہ بھی جاتارہا اور وہ آگے بڑھ کر اپنے بھائی سے گلے ملنے اور رونے لگا۔
دونوں بھائیوں کے ملاپ کایہ منظر جب باپ نے دیکھا تو وہ نہایت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
نور ونار‘کا خلاصہ
علی عباس حسینی سیرتِ انسانی کے ایک گہرے بناض ہیں اور کردارنگاری میں ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس افسانے میں بھی انھوں نے اپنی اس خصوصیت کا پورا ثبوت دیاہے۔اس افسانے میں لکھنوی تہذیب وتمدن کاایک عمدہ نقشہ پیش کیاگیاہے۔ جس سے بہت سے سبق آموز نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ علی عباس حسینی کے افسانوں کی سب سے نمایاں خصوصیت زبان کی سلاست اور روانی ہے۔
’’
نور و نار‘‘ ایک نہایت دلچسپ اور سبق آموز افسانہ ہے۔ اس افسانہ میں ایک بھولی بھالی معصوم لڑکی ذکیہ کی شوہر پرستی کا نقشہ نہایت خوبصورت انداز میں کھینچا گیاہے۔ اس کی محبت اور وفاشعاری نہایت زوردار اور مؤثرالفاظ میں پیش کی گئی ہے۔ شوہر کی بدسلوکی پر ذکیہ کا صبروشکر سے کام لیااور اس کے حکم و فرمان پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجانا اطاعت اور فرماں برداری کی ایک اچھی مثال ہے۔ جو ہندوستانی اور خاص طورپر ایک مسلمان عورت کاسب سے اعلیٰ کردار ہے۔
ذکیہ کے والد مولانا اجتبٰی حسین نے اپنے داماد اظہر کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے صاف انکار کردیاتھا مگر دل ہی دل میں انہیں اس بات پر پشیمانی ہورہی تھی اور بے قراری کے عالم میں یہ خیال انھیں ستائے جارہاتھا کہ جذبات میں آکر انھوں نے شاید غلط فیصلہ کیاہے۔ وہ اپنے گھر کے دالان میں اِ دھر اُدھر ٹہلتے رہے۔ ایسے میں انہیں گزرے ہوئے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ اظہر ان کی ااکلوتی بیٹی ذکیہ سے بیاہی گئی تھی۔ گھر کی ایک ملازمہ رحیمن کے ذریعہ انہیں یہ خبر ملی تھی کہ اظہر نے ذکیہ پرکس کس طرح کے ظلم وستم ڈھائے تھے۔ ذکیہ ایک معصوم اور نیک سیرت لڑکی تھی اور اظہر پولیس کا ایک داروغہ تھا اور اس کی عادتیں ذکیہ سے بالکل متضاد تھیں۔ نہ اسے اسلامی عقائد و احکام کی پروا تھی اور نہ ہی نیکی اور سچائی سے کچھ لگاؤ تھا۔ وہ شرابی اور جواری تھا اور بازاری عورتوں سے اس کے ناجائزتعلقات تھے مگر معصوم ذکیہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ان کرتوتوں کونظر انداز کردیتی تھی اور کبھی اس سے ناراض نہیں ہوتی تھی۔
دالان میں ٹہلتے ٹہلتے مولانا کی نظر اچانک ذکیہ کی کتابوں پرپڑی اور ایک ڈائری اٹھاکر انھوں نے اس کے چند اوراق پلٹے تو اس میں ذکیہ کی تحریریں دکھائی دیں۔ مولانا نے انہیں پڑھنا شروع کیا تو اظہر کے تعلق سے بہت سی باتیں ان کے سامنے آئیں ۔ اظہر ہمیشہ رات کو دیر گھر لوٹتا تھا مگر بھولی بھالی ذکیہ یہ سوچتی تھی کہ وہ اپنا فرض نبھانے کے لئے دیر گئے رات تک کام کرتارہتاہے۔ ایک رات اظہر جب اپنا سارا مال جوے میں ہاربیٹھا تو چپکے سے گھر آکر ذکیہ کے زیورات چوری کرکے لے جانے کی کوشش کررہاتھا تو اتنے میں ذکیہ کی آنکھ کھل گئی۔ شوہر کر بدحواس دیکھ کر وہ معاملہ کی تہہ کو پہنچ گئی اور خودہی اپنے سارے زیورات شوہر کے حوالے کردئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ ان زیورات کااصلی حق دار اظہر ہی ہے۔
ان اوراق میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ایک دن اظہر شراب کے نشہ میں چُور ہوکر گھر لوٹالیکن معصوم ذکیہ نے یہ سمجھ لیاتھا کہ شاید مسلسل کاموں کی وجہ سے وہ تھک گیاہے اور ا پنی ٹھکان دورکرنے کے لئے اس نے حکیموں کی دوا پی لی ہے۔ انہیں اوراق کے ذریعہ آگے چل کر یہ بھی پتہ چلا کہ آخرکار اپنی بیوی کی معصومیت اور اس کی نیک سیرت سے اتنا متاثر ہوا کہ ایک دن اس نے ذکیہ سے معافی مانگی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ایسی نیک سیرت بیوی پرظلم و ستم کرکے وہ نہایت شرمندہ ہے۔ اظہر کی ان باتوں سے اور اس کے اس طرح بدل جانے سے ذکیہ کو بہت تعجب ہوااور رحیمن کو بھی اس کا اندازہ ہواکہ اب وہ ساری بری عادتوں سے بازآچکاہے۔
ذکیہ کی تحریروں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اظہر کی زندگی میں اس طرح کی تبدیلی کے تھوڑے ہی دن بعد ذکیہ بیمار ہوگئی تو اظہر نے اس کی ہر طرح سے تیمارداری کی۔ ان سب باتوں کاذکر کرکے ذکیہ نے آخر چند دعائیہ کلمات بھی تحریرکئے تھے کہ خدا اظہر کو ہمیشہ خوش رکھے اور جنت میں بھی اسے اپنے شوہر کی معیّت نصیت فرمائے۔ اس کتاب کے آخری اوراق میں یہ دوجملے پڑھ کر مولانا کا دل لرز گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسوٗ جاری ہوگئے۔ ان تحریروں نے اظہر کے تعلق سے مولانا کادل صاف کردیا اور ان کا ارادہ بدل دیا اور وہ اظہر کی نماز جنازہ پڑھانے مسجد کی طرف نکل پڑے۔
اس افسانے میں علی عباس حسینی نے انسانی نفسیات کاتجزیہ کرتے ہوئے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ ایک نیک سیرت عورت کے اوصاف اور کردار اور اس کاحسنِ سلوک ایک گنہ گار انسان کو بھی راہ راست پر لے آتاہے۔اس افسانے میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ کسی شخص متعلق پوری واقفیت حاصل کئے بغیر اس کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ کیا پتہ اس نے توبہ کرلی ہو۔

جامن کا پیڑ ‘کا خلاصہ
’’
جامن کا پیڑ‘‘ کرشن چندر کاایک طنزیہ افسانہ ہے۔اس افسانہ میں کرشن چندر نے ہمارے ملک کے افسر شاہی نظام کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ افسروں اور کلرکوں کی کوتاہی، تساہل اور لاپرواہی پر سخت چوٹ کی ہے۔ انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملات میں بھی ہمارے کلرک اور حکومتی کارندے جس غیر ذمہ داری اور لا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں کرشن چندر کے اس افسانے میں اس کی سچی مرقع کشی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرکاری نظام اور طریق کار کے کھوکھلے پن کو بھی ظاہر کیا ہے۔ جہاں کام تو کچھ ہوتا نہیں لیکن محض کاغذی کاروائی میں وقت ضائع کیاجاتا ہے۔
کرشن چندرنے اپنے اس افسانے میں سرکاری محکموں اور شعبہ جات کی آپسی چپقلش اور تنازعات کی بھی تصویریں پیش کی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہم سے اہم کام بھی ان آپسی مناقشوں کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ بال کی کھال اتارنا ہوتا ہے۔
حکومت کے ایک دفتر میں ایک درخت کا گرجانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے مگر حکومتی افسران اس بات کا یوں پتنگڑ بناتے ہیں کہ یہ معاملہ ریاستی وزارتوں سے مرکزی وزارتوں اور وہاں سے وزارتِ عظمیٰ اور بین الاقوامی سیاست تک پہنچا دیا جاتاہے بلکہ اس کو دو ملکوں کا تنازعہ قراردے کر اسے ایک عالمی مسئلہ بنادیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پیڑ کے نیچے ایک آدمی دبا کچلا پڑا ہے اور جاں کنی کے عالم میں مبتلا ہے۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ اس گرے ہوئے پیڑ کو فوراً وہاں سے ہٹایا جاتا اور اس مرنے والے آدمی کی جان بچائی جاتی۔ اس طرح کرشن چندر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے دفتروں میں کاغذی کاروائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اصل کام جوں کا توں پڑا رہ جاتا ہے۔ حتّٰی کہ اس تھکادینے والی ضابطے کی کاروائی کے پیچھے ایک انسانی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے کلرک اور افسران اس ضابطے کے ایسے غلام ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے انسانی فرائض تک یاد نہیں رہے۔ موت کے منہ میں پھنسے ایک آدمی کو دیکھ کر کسی بھی انسان کا فطری ردِّ عمل یہ ہونا چاہئے کہ اسے اس مصیبت سے فوراً نجات دلائے اور یہ ایک اضطراری عمل ہونا چاہئے۔لیکن ہمارا دفتری نظام اس قدر غیر فطری ، غیر انسانی، ناقص اور نامعقول ہے کہ اسے انسانیت سوز نتائج کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ یہ قانون اور ضابطہ ہمارے زعم میں انسانوں کی فلاح و بہبود ی کے لئے ہے لیکن اس کا فائدہ انسانوں کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ اگر اسی تساہل اور لا پرواہی کا نام فرض شناسی ہے کہ ایک مرتے ہوئے آدمی کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور اپنے قانون اور قاعدے کی انجام دہی میں لگا رہے تو ایسے قانون اور ضابطہ کی کیا ضرورت ہے؟
’’
جامن کا پیڑ‘‘ کا قصہ یوں ہے کہ ایک سرکاری دفتر کے احاطے میں ایک جامن کا پیڑ گر پڑتا ہے۔ اس پیڑ کے نیچے ایک آدمی دب جاتا ہے۔ اس کی اطلاع افسروں کو ہوتی ہے تو پہلے تووہ پیڑ کے گرپڑنے پر افسوس ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ اب وہ جامنوں سے محروم ہوجائیں گے پھر وہ پیڑ کے نیچے دبے ہوئے آدمی کی طرف توجہ کرتے ہیں مگربجائے اس آدمی کوپیڑ کے نیچے سے نکالنے اور اس کی جان بچانے کے وہ اپنے اعلیٰ عہدیداروں کو اس کی اطلاع کراتے ہیں۔ آدمی کی جان بچانے کے لئے درخت کا کاٹنا ضروری ہے لیکن درخت کاٹنے سے دفتری پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ درخت کاٹنے کا کام کس محکمہ سے متعلق ہو۔ اس پر حکومت کے مختلف محکموں میں اختلاف پیدا ہوتاہے۔ یہ معاملہ مختلف وزارتوں میں گشت کرتا ہوا وزیر اعظم تک جاپہنچتا ہے۔ چوں کہ یہ درخت ایک بیرونی ملک کے وزیر اعظم نے دس سال پہلے لگایا تھا ، اب اس کے کاٹنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو جانے کا خوف ہے اس لئے وزارت خارجہ نے درخت کاٹنے سے منع کردیا۔ کسی نے یہ رائے دی کہ اگر درخت نہیں کاٹا جاسکتا تو کم ازکم آدمی کو کاٹ کر نکال لیاجائے۔ اس پر سنجیدگی سے غور و خوض بھی ہونے لگا۔ آخر وزارتی سطح پر کئی دنوں تک مختلف مشوروں، میٹنگوں اور مباحثوں کے بعد اس درخت کے کاٹنے کی اجازت ملی تو اس شخص کی جان نکل چکی تھی۔
کرشن چندر کا یہ افسانہ حالاتِ حاضرہ پر بہترین تنقید کا نمونہ ہے۔ خاص طور سے انتظامیہ کی سستی، کاہلی اور غیر ذمہ داری پر بھر پور چوٹ ہے۔ کرشن چندر نے اپنی خوب صورت زبان اور جاندار مکالموں سے اس افسانہ کو زمانہ کا آئینہ دار بنادیا ہے۔ یہ اُن کا کامیاب طنزیہ افسانہ ہے جو بہت حد تک انشائیہ سے مماثلت رکھتاہے۔

بھولا‘کا خلاصہ
’’
بھولا‘‘ راجیندرسنگھ بیدیؔ کے چند کامیاب افسانوں میں سے ایک ہے۔ بیدی کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ بیدی کے افسانوں میں پریم چند ہی کی طرح دیہاتی اور دہقانی پس منظر ملتا ہے۔ وہ اکثر غریب گھرانے متوسط طبقے کی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں ان کے افسانوں میں چونکا دینے والی کوئی بات نہیں ہوتی نہ ہی کوئی دلچسپ قصہ بیان کرتے ہیں بلکہ ان کے افسانے کی خوبی ان کے بیان اور اسلوب میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ’’بھولا‘‘ بھی اسی قسم کا ایک افسانہ ہے جس میں بیدی نے بچوں کی نفسیات پر کچھ اہم نکات پیش کئے ہیں۔
کہانی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک بوڑھا شخص اپنی بہو اور اس کے دو بچوں بھولا اور ننھی کے ساتھ ایک گاؤں میں زندگی بسر کرتاہے۔ اس کا بیٹا جوانی میں مرچکا ہے۔ بوڑھے اور اس کی جوان بہو کی امیدوں کا واحد سہارا یہی ننھا منّا بچہ ہے جس کا نام ’’بھولا ‘‘ ہے۔ بھولا کو کہانیاں سننے کا بے حد شوق ہے۔ وہ اپنے دادا سے کہانیاں سنتا ہے۔ ایک دن ’’بھولا‘‘ کو ٹالنے کے لئے بوڑھا کہتا ہے کہ دن میں کہانیاں سننے سے مسافر راستہ بھٹک جاتے ہیں اگر کوئی مسافر راستہ بھٹک جائے تو اس کا ذمہ دار وہ نہیں بلکہ ’’بھولا‘‘ ہوگا۔ اتفاقاً اسی دن بھولا کاماموں گھر آنے والا ہے۔ وہ بہن کے ہاتھوں میں راکھی باندھنے کے لئے ہر سال پابندی سے آتا ہے۔ لیکن اس دن وہ نہیں آیا۔ سب انتظار رکرتے کرتے سوگئے مگر بھولا جاگتا رہا۔ اُسے اس کا ضمیر ملامت کررہاتھا کہ کہانی سننے کی وجہ سے اس کا ماموں راستہ بھٹک گیاہے۔ وہ لالٹین لے کر باہر نکلتا ہے اور گاؤں پارکرکے سڑک پر جہاں کافی اندھیرا چھایا ہوا ہے آدھی رات کو اپنے ماموں کے انتظار میں چل پڑتا ہے۔ اتفاقاً اس دن اس کا ماموں واقعی راستہ بھٹک گیا تھا اور لالٹین کی روشنی سے اسے راستہ ملتا ہے۔ وہ بھولا کو گود میں اٹھا کر گھر لے آتا ہے۔ گھر میں اس کی ماں اور دادا سخت پریشان ہیں۔ بچے کو واپس پاکر سب خوش ہوجاتے ہیں۔
اس افسانے میں بیدی نے چھوٹے اور معصوم بچے کے دل میں اٹھنے والی امنگوں اور ننھے منے جذبات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بچوں کے ذہن میں کس طرح نقش ہوجاتی ہے اور کوئی بات بچے کے ذہن میں ایک بار نقش ہوجاتی ہے تو وہ آسانی سے مٹائی نہیں جاسکتی۔ اسی طرح بچے کا نیم پختہ شعور کسی بھی بات کو آسانی سے باور کرلیتا ہے۔ بچوں کو آسانی سے بہلا پھسلا کر چپ کردیا جاسکتا ہے لیکن ان کا دل جتنا صاف اور سچا ہوتاہے وہ ہر ایک کو اپنے ہی جیسا سمجھتے ہیں اور دھوکہ کھاتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کے سامنے غلط باتیں بتانا مضر ہوتا ہے اور بچوں کے سوالات کو ٹالنا یا لاپرواہی سے غلط سلط جوابات دینا ان کے لئے نقصان کا سبب بنتا ہے۔بھولا کو اس کے دادانے ٹالنے کی خاطر توہمات میں ڈالاتھا۔ اس کی سزا اُسے یہ ملی کہ ’’بھولا‘‘ کے کھوجانے پر کافی پریشانی اٹھانی پڑی۔ لیکن ’’بھولا‘‘ کا جذبہ سچا اور اس کی تڑپ میں خلو ص تھا تو اُس کواس کی معراج مل گئی۔
افسانہ میں ہمیشہ کہانی کی تلاش بے کار ہوتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی اچھوتا پہلو افسانہ کا موضوع بن سکتاہے۔ اسی طرح ’’بھولا‘‘ میں بھی کہانی کی تلاش بے کار ہے۔ اصل میں یہ زندگی کو الگ زوایہ سے دیکھنے کی کوشش ہے۔ ایک اچھے افسانے کی یہ شان ہوتی ہے کہ اس میں بات میں بات پیدا کی جاتی ہے اور اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرلی جاتی ہیں۔ ان میں بعض باتیں تو زندگی کے بعض گوشوں کی بڑی اچھی ترجمانی کرتی ہیں۔ یہ گُر ہر کسی کونہیں آتا۔’’بھولا‘‘اگرچہ بچوں کی نفسیات کو بنیاد بناکر لکھا گیا افسانہ ہے مگر اس میں عمومی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں اور زندگی کی تلخی کا بھی ذکر آگیا ہے۔ اسی افسانہ میں ایک جگہ عورت کی محبت کے مختلف روپ پیش کرتے ہوئے عجیب تجزیہ پیش کیا گیاہے۔
’’
عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے۔ ماں باپ، بھائی، بہن، خاوند، بچے سب سے وہ بہت پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پر بھی وہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے‘‘۔
غرض راجیندر سنگھ بیدی کا یہ افسانہ ’’بھولا‘‘ ہر حیثیت سے ایک کامیاب افسانہ ہے۔
خوش نصیب ‘کا خلاصہ
’’
خوش نصیب‘‘ علی اکبر کے مشہور ومقبول افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس افسانے کا پلاٹ مکمل اور مربوط ہے۔ اس کی زبان اور مکالمے نہایت جاندار اور دلنشین ہیں۔ افسانہ ایک عام معاشرتی موضوع پر سیدھے سادے پلاٹ میں لکھاگیاہے۔ لیکن اس کا اسلوب اور پیرایہ اس قدر دلچسپ ہے کہ شروع سے آخر تک ایک ہی تأثر برقرار رہتا ہے اور یہی وحدتِ تأثر افسانہ کی کامیابی کی دلیل ہے۔
اس افسانے میں دوقصے چلتے ہیں اور ان کی مدد سے افسانہ نگار نے زندگی کے معیاروں کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ عام طورپر لوگوں نے مال و دولت، عیش و عشرت کو اچھی زندگی کا معیار قرار دے لیا ہے۔ لیکن یہی مال کبھی وبال بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ خاص طور سے ایسے حالات میں جیسے اس افسانہ کے ایک کردار احسان صاحب کو درپیش ہیں، جہاں انہوں نے صرف دولت کی خاطر ایک ناروا سمجھوتہ کرلیا ہے۔
اس افسانے میں انہوں نے بے جوڑ شادیوں کے بھیانک انجام کو بھی ظاہر کیا ہے۔ جہاں ایک معمولی کلرک اپنی قلیل آمدنی کے ساتھ بیوی اور بچوں کا باراٹھانے میں سخت پریشانی محسوس کرتاہے لیکن چوں کہ اس کی بیوی خوبصورت، سلیقہ شعار اور حلیم و بردبار ہے اس کی زندگی افلاس کے باوجود چین اور سکون سے بسر ہورہی ہے۔ اس کے برعکس احسان صاحب نے دولت و ثروت کے لالچ میں ایک نہایت بھدی اور بدصورت لڑکی سے شادی کرلی ہے تو اب ان کی ازدواجی زندگی میں سکون نہیں ہے،وہ اپنے جنسی تقاضوں سے مجبور ہوکر اپنی خوبصورت نوکرانی سے پینگیں بڑھانے لگے ہیں اُن کی ان حرکتوں سے اُن کی بیوی نالاں ہے اور معاملہ طلاق تک پہنچ چکا ہے۔ شاید ان شدید الجھنوں اور اعصابی تناؤسے ان کی صحت خراب رہنے لگی ہے۔ اس موقع پر علی اکبرکے طنزیہ جملے ملاخطہ ہوں:
’’
ان کا بس چلتا تو وہ دن میں تین تین بارپلیٹ میں سونے کے بسکٹ رکھ کر کھاتے تب بھی اُن کی دولت کم نہیں ہوپاتی۔کاش کہ یہ ممکن ہوتا۔‘‘
اس افسانہ میں علی اکبر نے ایک غریب کلرک کی زندگی کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ اس غریب خاندان کی یہ جزئیات اس قدر سچی اور حقیقی معلوم ہوتی ہیں کہ قاری کو اس پریوارسے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس غریب کے لئے دوٹکے کی نوکری کو بچانا اس قدر ضروری ہے کہ وہ دیر ہوجانے پر اپنے بچوں کو اسکول بھی لے کر جانہیں سکتا۔ بچوں کی ٹی ۔ وی کے لئے خواہش اور اصرار پرپر وہ طرح طرح سے انہیں سمجھاتا اور آخرڈرا دھمکا کر خاموش کردیتا ہے۔ اس کی بیوی ثروت کا کردار اس افسانہ کا سب سے جاندار کردار ہے۔اس کی افلاس زدگی اور شرافت اور کردار کی مظلومیت افسانہ نگاری کی اعلیٰ فنکاری کا نمونہ ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’
ثروت کے کردار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتی۔ یہ نہیں پوچھتی کہ میں وعدہ کرنے کے باوجود یہ کیوں نہیں لایا وہ کیوں نہیں لایا۔ جیسے صرف مانگنا اُس کا کام ہو۔ چاہے طلب شدہ چیز اسے ملے یا نہ ملے‘‘۔
زندگی کی کڑواہٹ کو علی اکبر نے اس افسانے میں جذب کرلیا ہے۔ اس کے لئے وہ انتہائی جذباتی مناظر یا زبان کابھی استعمال نہیں کرتے۔ وہ صرف سادگی اور سچائی سے کام لیتے ہیں۔ افلاس کا کرب خود ٹپک پڑتا ہے۔ کرداروں کی شرافت اور مظلومی خود افلاس کی داستان بیان کرتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تموّل کے نقشے سے وہ ایک بدنصیب کردارکو پیش کرکے اصل نیک بختی کی معراج سمجھاتے ہیں۔ علی اکبر نے دولت پرحُسن کو ترجیح دی ہے۔ یہ ایک فطری نظریہ ہے۔ اس میں زیادہ فلسفیانہ موشگافیوں کی ضرورت نہیں ہے۔
اس افسانے میں علی اکبر نے عام زندگی کے کچھ اور پہلوؤں پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ دولت سے اثرو رسوخ، وقار اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ آن کی آن میں جھونپڑیوں کا صفایا اور ایک پُرشکوہ حویلی کا کھڑا ہونا اور تنگ و تاریک گلی میں پکّی سڑک اور روشنی کا انتظام دولت کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔احسان صاحب کی شخصیت وقار، اعتماد اور تمکنت کی تصویر ہے۔
علی اکبر نے اپنے اس افسانے میں ازدواجی زندگی کی ارتقائی منزلوں کابھی جائزہ لیا ہے۔ ابتداء میں ثروت کی فرمائشیں، پھر اس کی فرمائشوں میں تبدیلی، بچوں ہی کو نہیں اپنے شوہر کو بھی دلاسادینا ایک ذہنی ارتقاء کا پتہ دیتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ثروت وقت اور حالات کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
افسانے کی کامیابی کا انحصار موضوع کے ساتھ ساتھ اس کی زبان اور ادا پر ہے۔
ہر جملے اور خیال کو دوسرے کے ساتھ باہم اس طرح جوڑناکہ ان میں آہنگ ہی نہیں بلکہ معنی اور کیفیت بھی پیدا ہوجائے اور ان جملوں میں ذومعنی تفہیم نکل آئے، ایک فن کار ہی کا کام ہے۔ علی اکبر اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سارا افسانہ ایک تار میں اور اس کے سارے جملے اور خیالات موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے گئے ہیں۔ زبان صاف اور شستہ ہے۔ جملے معنی خیز اور بڑے نپے تلے استعمال گئے ہیں۔ اس طرح علی اکبر کا یہ افسانہ نہایت کامیاب افسانہ ہے۔
درد کا احسا س‘کا خلاصہ
امیر النساء کا یہ افسانہ ایک اصلاحی نقطۂ نظرسے لکھا گیاہے۔ اس افسانہ میں سماجی برائیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں صبا کا کردار ایک آدرش کردار ہے۔افسانہ کا کینوس مختصر اور پلاٹ غیر منظّم ہے۔ عام آدرش افسانوں کی طرح کردار بہت جاندار ہیں۔ چاچی کا کردار اور صبا کا کردار دونوں ہی کو متحرک دکھایا گیا ہے اور دونوں ہی کردار مؤثر ہیں۔ امیر النساء کے دیگر افسانوں کی طرح اس افسانہ میں بھی خیر اور شر کی کشمکش نظر آتی ہے اور بالآخر چاچی کے تائب ہونے اور صباکی نصیحت کے کارگر ہونے پر افسانہ ختم ہوجاتاہے۔
اس افسانہ میں امیر النساء نے ایک ایسی سماجی برائی کو موضوع بنایا ہے جو دیمک کی طرح معاشرہ کو چاٹ رہی ہے اور اسی برائی کے سبب خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ عورتیں جب آپس مل بیٹھتی ہیں تو دوسروں کی غیبت شروع کرتی ہیں۔اس میں سچائی بھی ہوتی ہے اور زیادہ تر جھوٹ ہوتا ہے۔ ایک طرف تو اس سے وقت برباد ہوتا ہے ، دوسرے یہ کہ جب اس غیبت کے بارے میں اُس عورت کو معلوم ہوتا ہے تو باہمی رنجش اور منافرت پیداہوتی ہے۔ اس سے معاشرہ میں بگاڑ آتا ہے اور اتفاق ختم ہوجاتاہے۔ یہ ایک تخریبی کاروائی ہے۔ سماج کی اسی خطرناک بیماری کو امیر النساء نے اپنے اس افسانے کا موضوع بنایا ہے۔
صبا ایک ذہین، سلیقہ منداور سلجھے ہوئے دماغ کی عورت ہے۔ دولت مند ہوتے ہوئے بھی نہایت بااخلاق اور بامروّت ہے۔ تلخ سے تلخ گفتگو پر بھی وہ بدمزہ نہیں ہوتی بلکہ بات کو بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ چاچی نہایت بگڑے دل کی، بدمزاج اور مفسد مزاج کی عورت ہے ۔ اپنی عادت کے مطابق صبا کو اُس کی بہوؤں سے بدظن کرنیکی کوشش کرتی ہے۔ خود اپنی بہو کے خلاف بھی زہر افشانی کرتی ہے۔ صبا کو چاچی کے یہ تیرو نشتر بُرے معلوم ہوتے ہیں اور وہ اُسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس طرح کی بدگمانی ٹھیک نہیں ہے اور وہ خود اپنا قصّہ بیان کرتی ہے کہ اُس کی ساس محض اس وجہ سے نئے گھر کی تعمیر کے خلاف تھی کہ نئے گھر میں بہوراج کرے گی اور اُس سے دیکھا نہ جائے گا اور وہ خود بہو کے سامنے ایسا کہتی تھی اور بہو یعنی صبا اسے سُن کر بھی بُرا نہیں مانتی تھی اور اپنی ساس کی خدمت اور دلجوئی میں فرق نہیں لاتی تھی اور آج جب کہ وہ خود ساس بنی ہے تو بہوؤں کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہیں کرنا چاہتی کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ ایسے سلوک سے دل پر کیا بیتتاہے۔ اس گفتگو کا اثر چاچی پر گہرا ہوتا ہے اور وہ اپنے طریق کار سے توبہ کرلیتی ہے اور اپنی بہو کو منا کرلے آنے کا تہیہ کرلیتی ہے۔
امیر النساء نے صبا ہی کے کردار کو مثالی نہیں بنایا ہے بلکہ اس پورے خاندان کو ایک مثالی خاندان پیش کیا ہے۔ صبا کے شوہر ندیم یہ جانتے ہوئے بھی کہ نئے گھر کی تعمیرسے ماں محض ایک ہٹ اور ضد کی وجہ سے روک رہی ہے اور وہ اپنی بدنیتی کا برملا اظہار بھی کررہی ہے، ماں کی بات کو تسلیم کرتا ہے اور ماں کے جیتے جی نئے گھر کی تعمیر نہیں کرتا۔ وہ اپنی بیوی کو بھی تاکید کرتا ہے کہ ماں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ ندیم اور صبا نے مل کر اپنے بچوں کی خوب اچھی طرح تربیت کی ہے کہ سارے محلے میں عدنان اور کامران کی شرافت اور نیک نامی کا چرچا ہے۔ اسی طرح جو بہوئیں آئی ہیں یا تو وہ پہلے ہی سے نیک نفس ہیں یا اس گھر کو آنے کے بعد اس ماحول میں رنگ گئی ہیں۔
صبا کا کردار ایک ایسا درخشاں ستارہ ہے جس کے سامنے افسانے کے دیگر تمام کردار ماند پڑ گئے ہیں ۔ صبا کا طرزِ فکر مثبت ہے۔ ساس کی بد طینتی پراگر وہ ہنگامہ کھڑا کرتی جیسا کہ عام طورپر ایسی سچویشن میں عورتیں کرتی ہیں تو پُرامن گھر میں انتشار پیدا ہوجاتا اور اس کا خاوند ندیم بھی ممکن ہے اس سے بد ظن ہوجائے۔اسی طرح چاچی کی چکنی چپڑی باتوں کے جواب میں وہ اس کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتی بلکہ خود اسے سمجھا بجھاکر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتی ہے جو اس کردار کی وسیع النظری اور مثبت طرزِ فکر کی علامت ہے۔

برف گزیدہ لوگ ‘کا خلاصہ
یہ افسانہ اکبر زاہد کے چند مشہور افسانوں میں سے ایک ہے ۔اس افسانے میں انہوں نے مسلم سماج کی بے حسی کو نشانۂ ملامت بنایا ہے۔ یہ افسانہ بظاہر نیک اور پارسالوگ کے نفاق اور خودغرضی کا پردو چاک کرتا ہے۔ یہ ایک علامتی افسانہ ہے جس میں واضح قصہ یا کہانی نہیں پائی جاتی ۔ الفاظ اور منظر نگاری سے افسانہ نگار ایک خاص مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کبھی یہ ابہام اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان علامتوں کے کئی کئی معنی اور مفاہیم ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
اکبرزاہد کے اس افسانہ کا کینوس زیادہ و سیع نہیں ہے۔ یہ افسانہ ایک مسجد کے سامنے صبح سے شام تک پیش آنے والے واقعات پر استوار کیا گیا ہے۔ ہر نماز کے بعد مسجد کے سامنے الگ الگ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد کے سامنے ایک شکاری کے ہاتھوں ایک خرگوش کے مارے جانے سے افسانہ شروع ہوتا ہے اور دوسری صبح ایک مُردہ گدھ کے پائے جانے پر افسانہ ختم ہوجاتاہے۔ انسانی ظلم وستم ، تاخت و تاراج خود غرضی اور نفاق، بزدلی اور بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک گدھ بھی جسے ایک مردہ دیکھ کر خوش ہوجانا چاہئے تھا ، مسجد کے مینار پر اداس بیٹھا ہے اور وہ ان مناظر کی تاب نہ لاکر ابدی نیند سوجاتا ہے۔
انسان کی حرص، مادہ پرستی، طمع اور ہوسناکی ا س حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی حدود کو پھلانگنے لگا ہے۔ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر بس نہیں کرتا ۔ قرآن کی یہ آیت ’’تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.......؟‘‘ انسان کے پیش نظر نہیں ہے۔ تبھی تو وہ اپنے جیسے انسانوں اور بے ضرر حیوانوں تک کے درپئے آزار ہے۔ خدا کی اس زمین پر ظلم ہورہا ہے اور بعض لوگ جانتے ہوئے بھی اَن جان بنے ہوئے ہیں۔ محض تفریح کے لئے ایک شخص نے اچھلتے کودتے مچلتے ہوئے ایک بے ضرر اور بے زبان کی جان لے لی۔ یہ منظر سب نے دیکھا لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا روکنا تو درکنار کسی کی زبان پر ایک حرف احتجاج بھی جاری نہیں ہوا۔ افسانہ نگار لوگوں کی بے حسی اور بزدلی کی طرف اشارہ کررہاہے۔ لوگوں نے اللہ کا کلام سنا ضرور تھا۔ ’’تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ ، لیکن وہ اپنے عمل سے اس کی نفی کررہے ہیں۔ وہ اُس کی نعمتوں کی قدردانی کہاں کررہے ہیں؟
صبح دم سردیوں میں سورج کی ملگجی روشنی میں پوری کائنات سفید نظر آتی ہے۔ سارا ماحول سفید ہے۔ برفباری سے دھرتی بھی سفید ہے۔ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والے لوگوں کے لباس بھی سفید ہیں۔ سفیدی جو تقدس اور پارسائی کی علامت ہے لیکن اس سفیدی کے در پردہ جو سیاہی ہے، افسانہ نگار اُس کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ گناہوں سے سرتاپا اٹے ہوئے لوگ پارسائی سفید لبادہ اوڑھ کر سماج کو دھوکہ دیتے ہیں۔
دوپہر جب گرمی میں ذرا شدت آتی ہے تو تمازت سے برف پگھلنے لگتی ہے۔ ماحول دھلنے لگتاہے۔ اسی لئے افسانہ نگار نے ان الفاظ کا نپاتُلا انتخاب کیا ہے۔’’دُھلا دھلا موسم، دُھلی دھلی دھرتی، اور دھلی دھلی ایک پُرشکوہ عمارت، ایک مسجد!‘‘ موسم کی یہ تبدیلی ایک سچویشن کی تبدیلی ہے۔ اس سچویشن میں افسانہ نگار سماج کی غربت اور افلاس کی طرف اشارہ کرتاہے۔ غریبوں کے سوالات اور ان سوالات پر سرمایہ داروں ، سیاست دانوں، صنعت کاروں اور زمینداروں کی پتھرائی ہوئی نظروں، بے رخی اور بے حسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک بھکارن کا ایک کار کے نیچے کچلا جانا،اشارہ ہے سرمایہ کاروں کے ظلم و اسبتداد کی طرف، غریبوں کے بہتے ہوئے خون کی ارزانی کی طرف اور مسجد سے نکلنے والے سفید پوشوں کا اس منظر کو دیکھ کر خاموشی سے وہاں سے کھسک جانا، انسان کی خود غرضی اور بے حسی کو ظاہر کرتاہے۔ اب اس لاش کے اطراف مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے بھکاری جمع ہوگئے ہیں۔ کافی دیر بعد کچھ پولیس کے سپاہی بیزارگی سے مرنے والی کو گالیاں دیتے وہاں پہنچتے ہیں۔ حادثہ کی تحقیقات کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لاش کو ٹھکانے لگانے کے لئے۔ کہیں سے ایک گدھ اڑتا ہوا مسجد کے مینار پر آبیٹھتا ہے۔ وہ سفید پوش جو پانچوں وقت اذانوں کے ساتھ نہایت پابندی سے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں، اُس دن حادثہ کے خوف نے انہیں اپنے اپنے گھروں میں مقیّد رکھا۔ دوسرے دن زندگی معمول پر آگئی۔ فجر کے بعد سفید پوش مسجد سے نکلتے ہیں تو انہیں وہ گِدھ مراہوا پڑا ملتا ہے۔جو کل مینار پر آبیٹھا تھا۔ یہاں گِدھ کی موت بڑی معنی خیز ہے۔ یہ سماج کی انتہائی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے۔
اس افسانے میں اکبر زاہد نے اسلامی معاشرہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اُن لوگوں کی اِس ریاکاری کو فاش کردیا ہے جنھوں نے چند عبادتوں کا نام دین رکھ دیا ہے اور مکمل دین کی روح سے ان کی زندگیاں خالی ہیں۔ ظاہری وضع قطع سے ، تھوڑی آدمی دیندار بنتاہے! یہ پورا افسانہ اسلامی عناصر اور علامتوں سے بھر پور ہے۔ مسجد، نمازیں، اذانیں، قرآنی آیتیں، سفید پوش وغیرہ وغیرہ۔
’’
دروازے کھول دو‘‘کا خلاصہ
کرشن چندر
’’
ڈرامہ دروازے کھول‘‘ ایک تعمیری اور مقصدی ڈرامہ ہے، قصہ، کردار اور مقصدیت اس کے وہ اراکین ثلاثہ ہیں جن سے اس ڈرامے کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس ڈرامے میں موضوع کو قصہ اور کردار نگاری سے الگ کردیاجائے تو ڈرامہ بے جان بن کررہ جائے گا اس کی مقصدیت ہی اس کی روح ہے اور یہ ڈرامہ ایک خاص نقطۂ نظر سے لکھاگیاہے۔ لیکن اس انداز سے کہ شروع سے آخر تک قاری کے تأثر میں کمی پیشی نہیں ہوتی اور اس میں ڈرامائیت نہایت انداز سے نمایاں ہے۔
ڈرامہ نگار سماج کی بعض خرابیوں کو دور کرکے معاشرے کو ترقی کرناچاہتاہے۔ ڈرامہ نگار کی نظر میں مذہبی تعصب قوم کی ترقی کی راہ میں روکاٹ بن کر کھڑاہوگیاہے۔ اس طرح کے تعصبات سے معاشرے کوپاک کرکے ہی قوم کو ترقی کی راہ پر لگایاجاسکتاہے اسی لئے مصنف نے ڈرامہ میں جو کردار پیش کئے ہیں ان میں بعض کرداروں کواپنی خرابیوں کانمائندہ کرکے پیش کیاہے۔ مثلاً پنڈت رام دیال کا کردار سماج کے ان انسانوں کی نمائندگی کرتاہے جو مذہبی تعصب کی وجہ سے اپنے دل و دماغ کے دروزاے بندکئے بیٹھے ہیں۔ ڈرامے میں پنڈت رام دیال ایک ایماندار اور نیک نفس شخص ہے جو کسی بھی قیمت پر اپنے ہندودھرم کو ہاتھ سے جانے دینا گوارا نہیں کرسکتا۔ وہ دہلی شہر کے نو بلڈنگوں کا مالک ہے لیکن اپنی ان بلڈنگوں میں ایسے ہی آدمیوں کو فلیٹ دے سکتاہے جو نہ صرف ہندو ہوں بلکہ ہندو مذہب کے عقائد کے پجاری بھی ہوں، اس کا جو مذہبی تصورہے اس نے اسے ایسا تقدیر پرست بنادیا ہے کہ فکرو تدبیر کو وہ بے پرواہی کی نظرسے دیکھتاہے اور ڈرامہ نگار اس کردار کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہمارا سماج تدبیر سے غافل ہوچکاہے اور انہی لوگوں کے غلط خیالات کی وجہ سے ملک میں جھگڑے اور اسی طرح کی دوسری سماجی برائیاں پیداہورہی ہیں۔
پنڈت رام دیال کابیٹا، کمل کانت اپنے باپ سے اختلافِ رائے رکھتا ہے وہ دراصل ہندو مذہب کے عقائد کے خلاف نہیں ہے لیکن مذہبیت سے بڑھ کر انسانیت کے لئے اس کے دل میں اہمیت ہے۔
اس ڈرامے کے دو اہم ترین کرداروں میں ازبیلا کولیو اور ایڈورڈکولیو ہیں یہ دونوں کردارمصنف کے فلسفہ کے ترجمان ہیں، اسی وجہ سے پنڈت رام دیال سے دل خراش کرنے والی باتیں سننے کے باوجود اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور اسی احسان کی بناپر خود رام دیال جیسا ایک متعصب انسان بھی اپنے دل سے ان گندے خیالات کو نکال پھینکنے پر آمادہ ہوجاتاہے،جن سے ہمارامعاشرہ بد سے بدتر ہوتاچلاجارہاہے۔
تعصبات کے موضوع پر مصنف نے ایک خاص اور طویل بحث کی ہے اور اس پر چند اعتراضات بھی پیش کئے ہیں۔ ڈرامہ نگار کاخیال ہے کہ مذہب کااصل مقصد انسانیت کو برقراررکھنا ہے اسی وجہ سے وہ کہتاہے کہ قومی یک جہتی کی تحریک کے ذریعے اقلیت کی بنیادپر ایک نئے قومی احساس اور اس کی تعمیر کرناچاہئے اور تحریک کی ذمہ دار ی ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ جانی چاہئے جو نہ صرف اقلیت پرست ہیں بلکہ ان رہنماؤں کی زندگی فرقہ پرستی کی آگ سے پاک بھی ہو۔
امراض اور اسباب کو بتانے کے ساتھ ڈرامہ نگار نے اس کا علاج بھی بتایاہے اور اس کے لئے اس نے الگ الگ کردار بھی پیش کئے ہیں۔ ان کرداروں میں کریم اللہ، مسسزکریم اللہ ، مرزا ارشاد حسین، ویلو، منن اور رنگاچاری، چنداں اہمیت کے حامل ہیں۔ کریم اللہ ایک باشعور اور وسیع النظر سائنسدان ہیں جو اس ملک کی ترقی کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیارہیں اور انہیں اس بات پر فخر بھی ہے کہ ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک میں ان کی ولادت ہوئی ہے اسی بناء پر مادرِ وطن کی خدمت کرناوہ اپنا مقصدِ زندگی اور جزِ ایمان سمجھتے ہیں۔ مرزا ارشاد حسین ایک مسلمان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے ہندو مالک سے وفاداری کرنا خوب جانتاہے بلکہ اس کی خدمت گذاری میں کوئی کسر نہیں رکھتااور اس کا خیال ہے کہ مالک چاہے وہ ہندو دھرم کا بچاری ہویاکسی اور مذہب کاعقیدت مند، پھر بھی اس سے بے وفائی کرناخداکی ناراضگی کاباعث بن سکتاہے۔
مصنف نے اس ڈرامے کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی زندگی کااصل مقصد مذہب نہیں بلکہ انسانیت اورقومی یکجہتی جیسی بلندقدریں ہیں۔ ایک دڑامے میں کشمکش جتنی شید ہوگی، اس میں اتنی ہی زیادہ دلچسپی بھی ہوگی اور انجام کاتأثر کبھی اتنا ہی گہراہوگا اس لحاظ سے کرشن چندر کا یہ ڈرامہ ’’دروازے کھول دو‘‘ بہترین ڈرامہ ہے اس لئے کہ اس میں فن کار نے سماج کی ایک حقیقی اور جیتی جاگتی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے پنڈت رام دیال، کمال کانت، کریم اللہ، ارشاد حسین، ایڈورڈ کولیو اور ازبیلا کولیو آج کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
ڈرامہ نگار کمال کانت اور ازبیلا کولیو کے کردار کے ذریعے ان پرانی روایتوں کوتوڑناچاہتا ہے جو سچی محبت اور اور دو دلوں کے جائز ملاپ کے درمیان حائل ہیں۔ ان سب خصوصیات سے بھی آگے بڑھ کر حب الوطنی، خدمت خلق، جوش آزادی اور بلاامتیاز ہر شخص سے محبت کابرتاؤ وغیرہ کی تبلیغ اس ڈرامے میں نمایاں ہیں اور دیکھا جاسکتاہے کہ ڈرامہ نگار تمام اخلاقی قدروں کومحفوظ رکھناچاہتاہے۔
یہ ڈرامہ ایک اصلاحی ڈرامہ ہے اور بلند مقصدوں کا حامل بھی۔ اس ڈرامے میں فکر و فن کاجو امتزاج ہے، اردو کے دوسرے ڈراموں میں ملنا مشکل ہے۔ جو ادبی فنکاری کابہترین نمونہ ہے۔ ڈرامہ نگار نے اکثر موقعوں پر کمالِ فنکاری کاثبوت دیاہے اس کی وجہ سے ڈرامہ میں ایک خاص دلچسپی شروع سے آخر تک قائم و دائم رہتی ہے۔ مکالمہ میں خشکی کو دور کرنے کے لئے ڈرامہ نگار نے ایک بہترین تدبیر تلاش کرلی کہ اس نے کردار اور مکالمے مزاحیہ انداز میں لکھ دئے جو مزاج کے ساتھ ساتھ طنز کا ایک بھرپور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اردو کے دوسرے اصلاحی ڈراموں میں ایسی چستی، جامعیت اور بلندئ فکر مشکل ہی سے ملیں گی، اس وجہ سے اس ڈرامے کو اردو کا ایک کامیاب اور مشہور ڈرامہ کہنا بالکل بجاہوگا۔

چھٹی کی درخواست کرتے ہوئے پرنسپل کے نام ایک خط

از
محمدحسن ،
متعلم بی،اے(سالِ اوّل)
سی ۔عبدالحلیم کالج[خودمختار]۔
میل وشارم
بخدمت
عالی جناب پرنسپل صاحب
سی ۔عبدالحلیم کالج[خودمختار]۔
میل وشارم
محترمی ومکرمی سلام مسنون!
عرضِ خدمت ہے کہ میری چھوٹی بہن کی شادی ۲۲؍ اگست ۲۰۱۵ ؁.ء کو شہرِ آمبور میں مقرر کی گئی ہے۔ مجھے کچھ ذمہ داریاں دی گئی ہیں اور میرے گھروالوں کا اصرار ہے کہ میں کالج سے دس دن کی رخصت لے کر گھر آجاؤں تاکہ شادی کے کام کاج کے سلسلے میں مَیں ان کی مدد کرسکوں۔ مگراتنے دنوں تک کالج کی غیر حاضری سے میری تعلیم کا حرج ہوگا۔ لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ مجھے براہ کرم ۲۰؍مئی سے ۲۴؍اگست ۲۰۰۹ ؁.ء تک صرف پانچ دنوں کی رخصت منظورفرماکر ممنون فرمائیں۔والسّلام
آپ کا تابعدار شاگرد محمد حسن
۲۰؍اگست ۲۰۱۵ ؁.ء
لفافہ پر مکتوب الیہ کا پتہ
بخدمت گرامی قدر
عالی جناب پرنسپل صاحب
سی ۔عبدالحلیم کالج[خودمختار]۔
میل وشارم
تعلیم کے لئے رقم طلب کرتے ہوئے والد صاحب کے نام ایک خط

ازمقام شہرِ وشارم
۲۰؍جولائی ۲۰۱۵ ؁.ء 
محترم المقام جناب والد صاحب مدظلہ العالی!
السّلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ
الحمد للہ یہاں پر مَیں ، والدہ محترمہ، بھائی بہن اور سب لوگ خیریت سے ہیں اور امید ہے کہ آپ بھی بخیر و عافیت ہوں گے۔
آپ کو یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوگی کہ اس سال میں نے بی، یس، سی (سالِ اوّل) کے تمام پرچوں میں امتیازی نمبروں کے ساتھ درجۂ اوّل میں کامیابی حاصل کی ہے اور اب سالِ دوم میں پہنچ چکی ہوں۔ اس وقت مجھے کالج فیس کی ادائیگی کے لئے دوہزار روپے کی ضرورت ہے اور فیس ادا کرنے کی آخری تاریخ ۲۶؍جولائی ۲۰۰۹ ؁.ء ہے۔ اس کے علاوہ میرے اسباق سے متعلق ضروری کتابیں اور نوٹ بکس وغیرہ بھی خریدنی ہیں جن کی مجموعی قیمت تقریباً ڈیڑھ ہزار روپیہ ہوگی۔ آپ براہِ کرم اپنی فرصتِ اولین میں مذکور رقم کسی کے ذریعہ روانہ فرمائیں۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ انشاء اللہ اس سال بھی خوب محنت کرکے امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کروں گی۔ آپ بھی میرے لئے دُعا فرماتے رہیں۔ والسّلام مع الاکرام
آپ کی فرماں بردار
شازیہ تمیم
لفافہ پر پتہ:
بخدمت عالی جناب جعفر اسلم صاحب
۱۰، ویپری ہائی روڈ
بڑی میٹ، چینئی۔ ۰۰۳ ۶۰۰

کسی کمپنی کے مینیجر کے نام ملازمت کے لئے ایک درخواست
من جانب
محمد فیاض
۱۲،یس آر اسٹریٹ
کرشناگری۔
بخدمت مینیجر صاحب
ین یم زڈکمپنی
آمبور
جنابِ والا!تسلیمات۔
اخبار ’’دکن ٹائمز‘‘ مؤرخہ ۲۵؍اپریل ۲۰۱۵ ؁.ء میں آپ کی کمپنی کا ایک اشتہار نظر سے گذرا۔ اس سلسلہ میں عرضِ خدمت ہے کہ مَیں بحیثیت اکاونٹس کلرک اپنی خدمت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میری تعلیمی صلاحیت و قابلیت کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔
میں نے مدراس یونی ورسٹی سے یم۔کام بدرجۂ اوّل کامیاب کیا ہے۔ شارٹ ہینڈ کا سر ٹیفکیٹ بھی میرے پاس موجود ہے ہے اور کمپیوٹر ڈپلوما بھی مَیں نے حاصل کیا ہے۔ فی الحال مَیں رانی پیٹ کے ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کررہاہوں۔مجھے بل بنانے اور بہی کھاتہ لکھنے کا تجربہ حاصل ہے اور انکم ٹیکس کے قواعد و ضوابط سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ اس درخواست کے ساتھ میری تعلیمی اسناد کی نقول بھی منسلک ہے۔
اگر آپ مجھے اپنی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع عنایت فرمائیں تو میں یقین دلاتاہوں کہ میں اپنے فرائض پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کروں گا۔
بصداحترام و شکریہ
نیازمند
محمد فیاض 
۲۸؍اپریل ۲۰۱۵ ؁.ء
مکتوب الیہ کا پتہ:
بخدمت جناب مینیجر صاحب
ین یم زڈکمپنی
آمبور۔ ۸۰۲ ۶۳۵ 

کتابوں کا آرڈر دیتے ہوئے کتب فروش کے نام ایک خط
محمدریاض عالم
۲۵۔محمدعلی جناح روڈ
قادرپیٹ
وانمباڑی
بخدمت جناب مینیجرصاحب
ایجوکیشنل بک ہاؤس
علی گڑھ
جنابِ والا! آداب تسلیمات۔
عرضِ خدمت یہ ہے کہ مجھے مندرجۂ ذیل کتابوں کی فوری طورپر ضرورت ہے۔ گذارش ہے کہ یہ کتابیں میرے پتہ پر بذریعۂ ریلوے پارسل روانہ فرمادیں۔ کتابیں موصول ہونے کے فوراً ساتھ میں اس کی رقم بذریعۂ بینک ڈرافٹ آپ کے نام روانہ کردوں گا۔
۱) فکرِ روشن پروفیسر آل احمد سرورؔ 
۲)آج کا اردو ادب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی
۳)اقبال:شاعر و مفکر پروفیسر نورالحسن نقوی
۴) اردو زبان کی تاریخ مرزا خلیل احمد بیگ
۵) سرسید اور ان کا عہد ثریا حسین
براہِ کرم فہرستِ کتب بھی اس کے ساتھ ارسال فرمائیں تاکہ آئندہ کتابوں کے انتخاب میں آسانی ہو۔ امید کہ کتابوں کی ٹھیک طور سے پیکنگ کی طرف بھی توجہ فرمائیں گے۔ والسّلام
نیازمند
محمد ریاض عالم
۲۸ جون ۲۰۱۵ ؁.ء
لفافہ پر پتہ:
جناب مینیجرصاحب
ایجوکیشنل بک ہاؤس
علی گڑھ۔ ۰۰۲ ۲۰۲

بہن کی شادی کی دعوت دیتے ہوئے دوست کے نام خط
از
آمبور
۱۵، جون ۲۰۱۵
محبی و عزیزی محمود اشفاق
السّلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہٗ۔ امید کہ مزاج بخیر ہوں گے۔
عرض خدمت ہے کہ میری چھوٹی بہن کی شادی ۲۲ جون ۲۰۱۵ ؁.ء بروز اتوار شہرِ آمبور میں مقرر کی گئی ہے۔ دعوتی رقعہ آپ کے نام پہلے ہی ارسال کیا جاچکاہے۔یہ ہمارے لئے بڑی مسرت کی بات ہوگی کہ آپ اپنے والدین اور بھائی بہن کے ساتھ شادی سے دو دن پیشتر ہی یہاں تشریف لائیں تاکہ شادی کے کام کاج کے سلسلے میں آپ سے مدد مل سکے۔ آپ کی آمد ہمارے لئے باعثِ صد مسرت ہے۔ 
جمیع اہلِ خانہ کی خدمات میں سلام عرض ہے۔ والسّلام
چشم براہ
محمود اشفاق
مکتوب الیہ کا پتہ:
منظور نعمان
۲۵۶، قائد ملت ہائی روڈ،
ٹرپلیکین، مدراس۔۵

محلہ کی صفائی کے لئے میونسپل کمشنر کے نام ایک خط
من جانب
عارف ندیم
۴۳؍۱۵ ین، آر، روڈ
پنشن لائن
سیلم
جنابِ عالی! تسلیمات۔
مَیں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کراناچاہتاہوں کہ ہمارے محلہ میں گلیوں اور سڑکوں کی صفائی اور دیکھ بھال کامناسب انتظام نہیں ہے۔نالیوں اور سڑکوں کے کناروں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر نمایاں طورپر دکھائی دیتے ہیں۔نالیوں میں گندہ پانی جمع ہوجانے کی وجہ سے مکھیوں اور مچھروں کی بھرمار ہے۔ اگر کچھ اور دنوں تک یہی حال رہا تو محلہ میں بیماریوں کے پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ آپ سے اتنی گذارش ہے کہ آپ بنفس نفیس کسی دن محلے کی اس ناگفتہ بہ حالت کا مشاہدہ فرمائیں اور اس کے بعد جو فوری کاروائی کرنی ہے، اس کے متعلق احکام صادر فرمائیں۔ مجھے اس کاپورا یقین ہے کہ ایک ذمہ دار افسرہونے کی حیثیت سے فور طور پر اس طرف توجہ فرماکر ممنون فرمائیں گے۔والسّلام
آپ کا نیازمند
عارف ندیم
(
سماجی کارکن)
۵؍ستمبر ۲۰۱۵ ؁.ء
لفافہ پر پتہ:
بخدمت جناب میونسپل کمشنر صاحب
سیلم میونسپالٹی
سیلم ۔ ۰۰۵ ۶۳۶

مضمون ایک جدید صنفِ ادب ہے اور موجودہ دور میں اس صنف کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ علم و ادب کا ایک خاص جز اور فن ہے اور اس فن کے ذریعہ ہر قسم کی معلومات، چاہے وہ کسی شعبۂ زندگی سے متعلق ہو، دوسروں تک پہنچایاجاسکتا ہے اور اگر کسی کے اندر لکھنے کا اچھا سلیقہ ہوتو وہ اپنے خیالات کو ایسے انداز میں پیش کرسکتا ہے کہ جس سے پڑھنے والوں کے دل متاثر ہو جائیں اور یہی ایک مضمون نگار کی کامیابی کی دلیل ہے۔
اپنے خیالات کے اظہار اور ترسیل کے لئے مضمون سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آج لہ جدید ترین معلومات خواہ وہ ادب کی ہوں یا سائنس کی یا کسی اور فن کی، اسی مضمون ہی کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس دور میں آئے دن کسی نہ کسی فن کے تحقیقی نتائج ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور نئی نئی ایجادیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ان کو متعارف کرانے کا سہرا مضمون ہی کے سر ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسیٹوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی کامیابی کا دار ومدار بھی کامیاب مضمون نگاری پر منحصر ہے۔ لہٰذا زندگی کے ہر شعبہ میں اظہارِ خیال کے لئے مضمون نگاری بہترین ذریعہ ہے۔ اس لئے اس پر عبور حاصل کرنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
کسی بھی موضوع پر مضمون لکھتے وقت اپنے خیالات کو مرتب اور منظم طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھے اچھے خیالات اگر منتشر اور بے ڈھنگے پن سے پیش ہوں تو مضمون بے لطف اور بے اثر بن جاتا ہے۔ مضمون لکھنے سے پہلے، موضوع کے ،مختلف پہلوؤں پر اچھی طرح سے غور کرنا چاہئے اور ذہن میں جو خیالات پیدا ہوں، انھیں ترتیب دے لینا چاہئے اور اس طرح خیالات وضاحت کے ساتھ پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہر مضمون کے تین واضح حصے ہوتے ہیں۔
(
۱) تمہید (۲) اصل مضمون یا درمیانی حصّہ (۳) خاتمہ یا اختتامی حصّہ
تمہید میں مضمون کے مقاصد پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس میں ان نکات یا ان پہلوؤں کی طرف اشارہ ضروری ہے جو اس مضمون میں پیش کئے جائینگے۔ یہ حصہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں پڑھنے والے کی وجہ اپنی طرف مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ تمہیدمختصر، موزوں، دلچسپ، واضح اور دلکش ہوناچاہئے۔
اصل مضمون کو عام طورپر متن کہا جاتا ہے اور یہی مضمون کی جان ہے۔ تمہید میں جو نکات یا خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ ان کی وضاحت اس میں ہوتی ہے، مثلاً کسی چیز کی تعریف اورتفصیلات، اس کے فائدے اور نقصانات ترتیب وار یکے بعد دیگرے پیش کئے جاسکتے ہیں۔ سہولت اور آسانی کی خاطرمضمون کو کئی حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے تاکہ نفسِ مضمون میں جو خیالات پیش کئے گئے ہیں، وہ ترتیب وار سمجھ میں آسکیں۔ اصل مضمون کے ہر حصہ کو ایک پیریگراف کہتے ہیں۔ ہر پیریگراف میں ایک پوری بات سمجھائی جاتی ہے۔
خاتمہ مضمون کا وہ حصّہ ہے جس میں ابتدائی اور درمیانی حصہ میں پیش کی گئی ساری باتوں کا نتیجہ اور خلاصہ ہوتا ہے۔ اس حصہ میں عنوان اور مضمون سے متعلق ساری باتیں چند لفظوں میں اس طرح پیش کرنی چاہئے کہ پڑھنے والا محسوس کرے کہ پوری طرح بات سمجھ میں آگئی ہے۔ اس اعتبارسے مضمون کے تینوں اجزاء ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور ہر حصہ کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ مضمون نگاری میں اس طرح شروع سے آخر تک مضمون پر گرفت برقراررکھی جاسکتی ہے اور اس میں دلچسپی بھی قائم رہتی ہے۔
مضمون نویسی کے سلسلہ میں مضمون نگار کو چند اصولوں کا خاص طورپر خیال رکھنا ضرور ی ہے۔
مضمون نگار کو سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کرلینا چاہئے اور یہ بھی طے کرلینا چاہئے کہ اس موضوع کے تحت کیا لکھنا ہے اور موضوع کے تعلق سے جو باتیں ذہن میں آجائیں اسے بھی نوٹ کرلیں تاکہ انہیں مناسب جگہ پر استعمال کرسکیں۔
مضمون نگار ی کے لئے مواد کی فراہمی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ مضمون اسی وقت بہتر اور مکمل ہوسکتا ہے جب اس کے متعلق مکمل معلومات ہوں۔ اس کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ مطالعہ ہے۔ موضوع سے متعلق مواد کی فراہمی کے سلسلے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ مطالعہ کے دوران اگر کچھ ایسے مضامین اورجملے نظر آئیں جن سے مضمون میں مدد ملنے کا امکان ہوتو انھیں نوٹ کرلیں تاکہ مضمو ن لکھتے وقت ان سے مدد حاصل کی جاسکے۔
مضمون نگارکو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ہر مطلب کو مختصر سے مختصرالفاظ میں ادا کیا جائے اور غیر ضروری باتوں کے ذکر سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ خیالات کو دل نشین اور عمدہ طریقہ پر ظاہر کرنا چاہئے۔ موزوں اور مناسب الفاظ کا استعمال کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ مضمون کو دلچسپ بنانے کے لئے درمیان میں جابجا مختلف سرخیاں قائم کردی جائیں۔
مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ سادہ اور سلیس ہوں اور لکھنے والے کا مطلب اچھی طرح واضح ہوجائے۔ جو محاورے،ضرب الامثال اور کہاوتیں استعمال کی جائیں وہ ایسی ہونی چاہئے کہ سب لوگ اس کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ مشکل عبارت اور دقیق الفاظ استعمال کرنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے جملے اور عام فہم الفاظ استعمال کئے جائیں جس کی وجہ سے لکھنے میں بھی آسانی ہوگی۔
مضمون نگار کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ مضمون میں خیالات کا ربط قائم رہے۔ جب تک ایک بات مکمل نہ ہوجائے، دوسری بات شروع نہ کی جائے۔ جس بات کا ذکر ہو، تمام جملے اسی کے متعلق ہوں۔ ایک بات پوری کئے بغیر دوسری بات کا بیان کرنا مضمون کو بے ربط بنادیتا ہے اور پڑھنے والوں کے لئے باعثِ تکلیف بن جاتا ہے۔
مضمون نگاری کے سلسلہ میں ایک بات یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے تو اس طرح بیان نہ کیا جائے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرے کہ آپ اس سے زبردستی بات قبول کرانا چاہتے ہیں۔قاری سے کسی بات کے لئے اصرار اور اپنی بات کو منوانے کا طریقہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مضمون نگاری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی بات اس انداز میں پیش کرے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ وہ اس کے ہو کہ وہ اس کے ہی دل کی بات کہہ رہا ہے۔
مذکورہ بالا اصولوں کے علاہ وہ مضمون نگار کو اس حقیقت سے واقف ہونا چاہئے کہ عام لوگ ہمیشہ دلکش او رپُراسلوب بیان کو پسند کرتے ہیں اور یہی چیز مضمون نگار کی قبولیت کی ضامن ہے ۔ اس ضرورت اس بات کی ہے کہ قدیم و جدیداردو ادیبوں اور انشاپردازوں کی تحریروں اور مضامین کا باربار مطالعہ کیاجائے جنھوں نے اردو نثر کی آبیاری میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
اخبار کا مطالعہ

آج کے ترقی یافتہ دور میں اخبارات نے ہماری زندگی میں ایک اہم حیثیت حاصل کرلی ہے۔ ہر طبقہ کے لوگ آج اخبار سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ طالبِ علم، نوجوان ، سیاست دان، تاجر، کھلاڑی اور نوکری کے امیدوار سب اخبار کے احسان مند ہیں۔ اخبار ہمیں مقامی، صوبائی، ملکی اور غیرملکی ہر جگہ کی خبریں فراہم کرتے ہیں۔ بعض ایسی باتیں جو ضخیم کتابوں سے بھی ہمیں حاصل نہیں ہوتیں، اخبار کے ذریعہ بآسانی معلوم ہوجاتی ہیں۔ یہ عام لوگوں کے لئے تعلیم کا ایک سستا اور آسان ذریعہ ہے۔اگر اخباروں کو چلتی بھرتی انسائیکلوپیڈیا کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔
اخبارات کاایک کام تو ہم کواپنے گردوپیش کے ضروری حالات اور ملکی واقعات سے باخبر رکھنا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں ساری دنیا کے حالات وواقعات سے باخبر رکھتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں میں کیا ہورہا ہے، وہاں کی سیاسی صورت حال کیسی ہے، مختلف علوم و فنون میں کیا ترقی ہوئی ہے۔ وہاں کے رہنماؤں، سائنسدانوں، سماجی کارکنوں، ادیبوں اور شاعروں نے کیا کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں،ان سب کی تفصیلات ہمیں اخباروں کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں۔ دیہاتی لوگ بھی دنیامیں ہونے والے واقعات اور حالات اخباروں کے ذریعہ معلوم کرلیتے ہیں اور اس طرح دوردرازعلاقوں اور ملکوں میں رہنے والے ایک دوسرے کے قیب ہوجاتے ہیں اور ان میں بھائی چارگی اور دوستی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قومی تفرقے اور اجنبیت کی دیواریں ہٹ جاتی ہیں۔ دنیا کے دوردراز کونوں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کے جذبات ان کے دلوں میں جگہ لیتے ہیں اور اس طرح ساری دنیا میں ایک ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
صنعت و حرفت کی ترقی میں اخبارات کے ذریعہ سے بڑی مدد ملی ہے۔ آج کسی چیز کابازار کسی ایک شہر یاکسی ایک ملک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت ممالک اس کے لئے بازار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی ملک کی پیداوار اور مصنوعی اشیاء کے اشتہارات کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ غلّہ، سونا، چاندی اور دیگر اشیاء کے دام کااُتارچڑھاؤ اخبار کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے اور کاروباری لوگ گھر بیٹھے مال کا بھاؤ معلوم کرلیتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی درآمدات اور برآمدات کاعلم بھی اس سے حاصل ہوتا ہے۔
اخبار ہمیں کھیل کود کی دنیا سے بھی آشنا کراتے ہیں۔ وہ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی اور ٹینس کے بارے میں معلومات اور خبریں فراہم کرتے ہیں۔ اچھے کھلاڑیوں کی دنیا کے ہر ملک میں قدر کی جاتی ہے اور سماج میں ان کو باعزت مقام حاصل ہوتا ہے۔ اخبارات ان کے کھیل کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ زبان وادب کی ترقی میں بھی اخبارات کا بڑااہمٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ حصہ ہے۔ آج کل اخباروں میں مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات اور ان کے فن پاروں کا تعارف کرایاجاتا ہے۔ افسانے، کہانیاں ، غزلیں، نظمیں، قسط وارناول شائع کئے جاتے ہیں جو کہ زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ دل بہلانے کاکام بھی کرتے ہیں۔ اخبار کے ذریعہ بے روزگاروں کو، روزگاری کے متعلق تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ کبھی کبھی ضرورت رشتہ کے اشتہارات آتے ہیں اور دور دراز کے لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ریلوے کے اوقات اور موسم کی جانکاری بھی ہمیں اخبارات کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ چند صفحات میں ہمارے لئے بہت سی مفید اور کارآمد باتیں ملتی ہیں۔ اس کے پڑھنے میں جو وقت لگتا ہے وہ کسی حال میں ضائع نہیں ہوتا۔
اخبارات یوں تو ہماری تمام زندگی پر اثر ڈالتے ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا اثر رائے عامہ پر پڑتا ہے۔ لوگوں کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز، سیاسی اور سماجی زندگی کا بڑا حصہ اخباروں سے اثر انداز ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ خود اپنے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل سے بالکل لاعلم ہوتے ہیں۔ اخباروں کی آواز عام لوگوں کی رائے پربڑااثر ڈالتی ہے۔ وہ لوگوں کوان کے حقوق اور فرائض بتاتے ہیں۔ وہ جرائم کی خبریں چھاپ کرہمیں ان کے خطرات سے بروقت آگاہ کراتے ہیں۔ اخبار کے ذریعہ ہمیں نہ صرف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور اہم حقائق کاپتہ چلتا ہے بلکہ یہ بلکہ وقت گذاری کا بھی سب سے مفید مشغلہ ہے۔
مختصر یہ کہ اخبارہماری زندگی میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے خیالات میں وسعت آتی ہے اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس میں ایک برائی کاپہلو بھی شامل نظر آتا ہے۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی اور اخلاق خراب کرنے والے واقعات سے پڑھنے والے کے ذہن پر برے اثرات پڑنے کا امکان ہے۔ بے بنیاد اور جھوٹی خبروں سے ملک کے امن اور سلامتی میں خلل پیداہوسکتا ہے۔ تاہم اخبارات کے فائدے اس کے نقصانات کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں۔ اچھے خبارات عوامی زندگی کو سدھارنے اور ترقی دینے میں بڑاحصہ لیتے ہیں۔وہ ہمارے حقوق اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں تاکہ ہم سماج کی بھلائی کا بہترکام انجام دے سکیں۔ عوامٌ ٌٌٌٌٌاور حکومت کے درمیان تعلق قائم رکھنے میں بھی اخبار سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ اس کا استعمال اگر ٹھیک طرح سے کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔
سائنس کاصحیح اور غلط استعمال

موجودہ دور میں سائنس کی دریافت اور ایجادات نے ہماری زندگی میں اتنی اہمیت اختیار کرلی ہے کہ سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ہمیں ان سے واسطہ پڑتاہے۔ روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چیز سے لے کر بڑی چیز تک سائنس کی دی ہوئی ہے۔ ہماری ترقی کا تمام دار ومدار سائنس پر ہے۔ سائنس کی بدولت آج جو آرام و آسائش کے سامان ایک عام آدمی کو حاصل ہیں۔ وہ شاید پہلے بادشاہوں کوبھی میسر نہ ہوئے ہوں گے۔ کارخانے کے بنے ہوئے کپڑے، بجلی کی روشنی، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سینما، ریل، موٹر اور ہوائی جہاز کی سواری، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ آج ان سب کا استعمال عام ہے۔ اگلے زمانے کی وہ باتیں جو قصے کہانیوں میں محدود تھیں، سائنس کی بدولت اب وہ جیتی جاگتی حقیققت بن گئی ہیں۔ پہلے جن علوم اور تفریحات تک صرف چند گنے چنے لوگوں کی رسائی تھی، آج ان کے دروازے ایک عام آدمی کے لئے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ یہ سائنس ہی کا کارنامہ ہے کہ آج ہم اپنے آباواجداد کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں۔ سائنس نے جو کچھ انسانی بہتری کے لئے اب تک کیا ہے اور جوکر رہی ہے اس کے لئے ہمیں سائنس کا احسان مند ہونے کی ضرورت ہے۔
سائنس کے جو بے پایاں احسانات اور فائدے عالمِ انسانیت کو حاصل ہوئے ہیں، آج کے دور میں اس کا اعتراف کئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ سائنس کی وجہ سے آمدورفت، نقل وحمل اور پیغام رسانی کے تیزرفتار ذریعے ہمیں حاصل ہیں۔ کاروں، بسوں، ریلو ں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے ہزاروں میل کے فاصلے چند گھنٹوں میں نہایت آرام کے ساتھ طے کئے جاسکتے ہیں۔ ان تیز رفتار سواریوں نے تیز رفتار راکٹ بھی وجود میں آگئے ہیں، جنھوں نے آواز کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ ان راکٹوں کے استعمال سے انسان چاند اور دوسرے سیاروں کی چھان بین میں لگا ہوا ہے۔ اخبار، ریڈیو، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ تمام دنیا کی پل پل کی خبریں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جاتی ہیں۔ ہزاروں میل دور سے لوگ اس طرح بات کرسکتے ہیں۔ جیسے آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں۔ آسمان کی خبریں زمین کو پہنچانا بھی سائنس کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔
دنیائے طب میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ دوااور علاج کے طریقوں کو سائنس کی ترقی نے اتنا پر اثر بنادیا ہے کہ اب وہ تام بیماریاں جو کچھ عرصہ پہلے تک لا علاج سمجھی جاتی تھیں، آسانی سے دور کی جاسکتی ہیں۔قریب قریب ہر بیماری کی پراثر دوائیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ سائنس کی ترقی نے ایسے آلے ایجاد کردئے ہیں جو جسم کے اندورنی حصوں کی صحیح جانچ کرکے مرض کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ ایکسرے کے ذریعے جسم کے ہر حصّے کا معائنہ کیا جاسکتا ہے۔ علاج کے طریقوں میں سب سے حیرت انگیز ترقی آپریشن اور سرجری کے فن میں ہوئی ہے۔ جس کس کا تصور بھی پہلے کا انسان نہیں کرسکتا۔ جسم انسانی کے اعضاء کی تبدیلی اور پیوندکاری میں جدید آلات کی وجہ سے بڑی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ علاج و معالجہ کے نت نئے طریقوں سے اس قدر آسانیاں فراہم ہوگئی ہیں کہ ایک آدمی کو تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
سائنس کی ایجادوں میں بجلی کی دریافت اور اس کا استعمال نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے مشکل سے مشکل کام منٹوں میں پورے ہوجاتے ہیں۔ گھروں اور سڑکوں کو روشن کرنے، کارخانوں اور فیکڑیوں میں چیزیں تیارکرنے، گرمیوں میں پنکھوں سے ہواحاصل کرنے، جاڑوں میں ہیٹر کے ذریعے اپنے آپ کو گرم رکھنے اور روزمرہ زندگی کے بہت سے چھوٹے بڑے کام بجلی کی قوت سے انجام پاتے ہیں۔ اسی بجلی سے چلنے والے سینما، ٹیلی ویژن، وی، سی ،آر اور ٹیپ ریکارڈر وغیرہ نے ہماری زندگی کو رنگین اور پرمسرت بنادیا ہے۔
ہماری موجودہ صنعتی ترقی میں سائنس نے زبردست انقلاب پیدا کیا ہے۔ مشینوں کی وجہ سے کم محنت اور خرچ میں زیادہ اور بہتر چیزیں تیارہورہی ہیں۔ زراعت اور کھیتی باڑی کے کاموں میں بھی مشینوں کا استعمال عام ہورہا ہے اورٹریکٹر اور ٹیوب ویل کی وجہ سے بنجر علاقے بھی کاشتکاری کے قابل بنائے جارہے ہیں۔ کیمیائی کھاد کے ذریعے اچھی فصلیں اگائی جارہی ہیں اور یہ سب ترقی سائنس کی بدولت ہورہی ہے۔
دنیائے انسانیت پر سائنس کے ان بے شمار احسانات کے باوجود، سائنس کے عطا کئے ہوئے ان تحفوں کا غلط استعمال بھی ہورہاہے۔ کارخانوں میں مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی جس کی وجہ سے بے شمار لوگ بے کار اور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ تیزرفتار سواریوں کی وجہ سے ٹریفک کے حادثوں میں اضافہ ہورہا ہے، آئے دن بنائے جانے خوفناک اور مہلک ہتھیاروں کی وجہ سے تما م دنیا ایک بہت بڑے خطرے سے دو چار ہے۔ اگر کسی جنگ میں یہ خطرناک ہتھیار استعمال کئے گئے تو ہزاروں سال پرانی انسانی تہذیب کا چندمنٹوں میں خاتمہ ہوسکتاہے۔ سائنس اور مادی ترقی کی دوڑ میں انسان اپنی روحانی، اخلاقی اور سماجی مقاصد کو بھلاتاجارہاہے اور صنعتی ترقی نے بہت سی ذہنی الجھیں اور پریشانیاں پیداکردی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہم اس حقیقت سے گریز نہیں کرسکتے کہ اگر سائنس کا استعمال سوچ سمجھ کر اور انسانیت کی بھلائی کے لئے کیا جائے تو یقیناًباعثِ رحمت ہے۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر کی اہمیت
انسانی تاریخ کی ایک سب سے بڑی اور حیرت انگیز ایجاد کمپیوٹر ہے۔ اس نے انسانی زندگی کی حرکات و سکنات اور غورو فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہماری زندگی کے اہم فیصلہ کن کاموں اور عام ضروریات والے کاموں میں اس سے بڑی مدد مل رہی ہے۔ یہاں تک کہ آج ہم کمپیوٹر کی مدد سے دنیا کے کسی بھی حصّے میں پیامات اطلاعات وغیرہ کو چند منٹوں میں پہنچا سکتے ہیں۔ صنعت و حرفت،تجارت، طب، تعلیم اور گھریلو ضروریات غرض کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں اس کا استعمال نہ کیا جاتاہو۔
کمپیوٹر ایک ایسی برقیاتی یا الکڑانک مشین ہے جوان معلومات یاہدایات کو جو اسے دی جاتی ہیں، محفوظ کرلیتی ہے اور طلب کرنے پر ان معلومات کو ہماری دی ہوئی ہدایات کے مطابق عمل کرکے پیش کردینی ہے۔ اس کے علاوہ ان معلومات کو یکجا کرنے، انھیں ترتیب دینے اور محفوظ رکھنے کا کام بھی کمپیوٹر انجام دیتا ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان تمام کاموں کو بہت تیزی سے اور بہت کم وقت میں کرلیتا ہے۔پھراس کی یادداشت اور کام کرنے کامیدان بھی بہت وسیع ہوتا ہے۔ ایک کمپیوٹر ہزاروں ہدایات پر عمل کرسکتا ہے اور لاکھوں معلومات کو محفوظ اور انھیں طلب کرنے پر پلک جھپکتے ہی اپنے گودام سے تلاش کرکے ہمارے آگے لاکر پیش کردیتاہے۔
چارلس بابیج(Charles Babbage) کو جو علم ریاضی کا ماہر تھا،فادرآف کمپیوٹر کہاجاتا ہے۔ اس نے ایک بڑی حسابی مشین بنائی اور اس کا نام مشینِ تحلیلی (Analytical Machine) رکھا۔ اس کے اس اصول کو کمپیوٹر کی ساخت میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ رفتہ رفتہ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں غیر معمولی تغیر او ر تیز رفتاری رونما ہوتی گئی اور اس نے دنیا کا نقشہ تبدیل کردیا۔
بنیادی طورپر کمپیوٹر کے دو اہم حصّے ہوتے ہیں۔ جنھیں ملاکر کمپیوٹر کہاجاتاہے۔ ایک ہارڈویر، دوسراسافٹ ویر۔ ہارڈویر میں کمپیوٹر میں نظر آنے والے تمام آلات پرزے اس کے برقیاتی سرکیوٹ اور اس طرح اس کا کلیدی تختہ اسکرین، ٹیپ رکارڈر اور پرنٹر وغیرہ شامل ہیں۔لیکن محض ہارڈویر کوئی کام نہیں کرسکتا جب تک سافٹ ویر موجود نہ ہو۔ کمپیوٹرکا یہ دوسرا اہم حصہ سافٹ ویر دراصل ان تمام معلومات اور ہدایات پر مشتمل ہوتاہے جو کمپیوٹر کو کام کرنے کے لئے فراہم کی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر کو دی جانے والی ان ہدایات کوپروگرام کہتے ہیں۔ مختصر طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہارڈویر کمپیوٹرکا جسم اور سافٹ ویر اس کی جان ہے۔ کمپیوٹر پر جو کام ہوتا ہے ، اسے عام طورپر اس کے اسکرین پر دیکھ لیا جاتاہے لیکن بعض اوقات اس طرح حاصل ہونے والی معلومات اور نتائج کا مستقل ریکارڈ حاصل کرناضروری ہوتاہے۔ اس ضرورت کے تکمیل کے لئے کمپیوٹر کے ساتھ ایک مشین ہوتی ہے جو پرنٹرکہلاتی ہے۔
پہلا باقاعدہ کمپیوٹر ۱۹۴۰ ؁.ء میں تیار ہوا تھا، اس کے بعد سے آج تک اسے ترقی دینے کا عمل جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ کام لیاجاسکے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا شعبہ رہ گیا ہو ، جس میں کسی نہ کسی مرحلے پر کمپیوٹر کا استعمال نہ کیا جاتا رہا ہو۔ جیسے جیسے کمپیوٹر کی صنعت ترقی کررہی ہے، اس کا استعمال بھی آسان سے آسان ترہوتاجارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے اداروں بلکہ گھریلو ضرورتوں کے لئے بھی مائکرو کمپیوٹر سے کام لیا جارہا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے بھی اس کا استعمال ہوتاہے۔
کمپیوٹر کا اصل استعمال تجارتی اداروں، صنعتوں، ہوائی کمپنیوں ، طبی، سائنسی اور تحقیق اداروں میں ہوتا ہے۔ جہاں بہت سے کام اس سائنسی ایجاد کی بدولت زیادہ آسانی اور زیادہ صحت کے ساتھ اور کم وقت میں ہونے لگے ہیں۔ دفتروں اور لائبریریوں میں بھی کمپیوٹرسے کام لیا جانے لگا ہے۔ کمپیوٹر میں ہزاروں فائیلوں میں بکھری ہوئی تفصیلات ایک اشارے سے یکجا ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ معلومات ایک جگہ سے دوسرے جگہ خواہ ان کا فاصلہ کتناہی کیوں نہ ہو ، پلک چھپکتے میں بھجوائی جاسکتی ہیں اور اتنی ہی دیر میں جوابی پیغام وصول کیا جاسکتاہے۔ کمپیوٹر کے ذریعہ سے اب ڈاک کی برقیاتی ترسیل کے کام میں بھی مددلی جارہی ہے اور اب اس نظام سے مدد لے کر اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے خط کی نقل دنیا کے دور دراز حصے میں چند سکنڈ میں پہنچا سکتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں فضائی سفر اور ریلوے کی نشست محفوظ کرنے کے لئے بھی کمپیوٹر سے مدد لی جارہی ہے، جس کی وجہ سے سفر اب بہت آسان ہوگیا ہے۔
دکانوں اور مارکٹوں میں کمپیوٹر کا استعمال بھی اب بڑھتا جارہاہے۔ کمپیوٹران جگہوں پر ایک طرف گاہک کے لئے سہولت پیدا کرتاہے تو دوسری طرف ان کاروباری مراکز کاکام بھی آسان بناتاہے۔ مالیاتی اداروں اور خاص کربینکوں میں کمپیوٹر کی وجہ سے بہت سی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ بعض ملکوں میں گھر بیٹھے کمپیوٹرکے ذریعے سے بینک سے رابطہ قائم کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لئے بھی کمپیوٹرکا استعمال عام ہوتاجارہا ہے۔ پیچیدہ قسم کی بیماریوں میں مریض کے سابقہ طبی رکارڈ کے مطالعہ سے تشخیص اور علاج میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جسم اور مختلف جسمانی اعضاء کے اندرونی حالات کمپیوٹر کے ساتھ لگے ہوئے آلات اور مشینوں کے ذریعے سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ سرجری میں مدد کے لئے بھی اسے استعمال کیا جاتاہے۔ 
غرض انسانی زندگی میں کمپیوٹرکے بڑھتے ہوئے اثرات ہماری زندگی کے طور طریقوں ،ہمارے عادات اور ہماری ضروریات میں حیرت انگیز تبدیلی پیداکرچکے ہیں اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ مستقبل کی دنیا کمپیوٹر کی دنیا بننے والی ہے۔
ترجمہ نگاری

کسی تحریر کوایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کردینے کا نام ’’ترجمہ‘‘ ہے۔ یہ ایک ایسافن ہے جسے بڑی مہارت اور ریاضت کی ضرورت ہے۔ ترجمہ ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ ہم دوسری زبانوں میں موجود علم و ادب کے خزانہ کو اپنی زبان میں منتقل کرتے ہیں جس سے زبان پھیلی پھولتی اور ترقی کی نئی راہوں پر قدم رکھتی ہے۔ گویا علمی سطح پر ترجمہ دو زبانوں اور دوتہذیبوں کے درمیانایک پل کا کام انجام دیتا ہے ۔ موجودہ دور میں ترجمہ کی اہمیت اور افادیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دور دراز علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات اور حوادثات بالکل مختصر مدت میں ترجمہ کے ذریعے ہر ملک اپنی اپنی زبا ن میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر کرتا اور دکھلاتا ہے اور ہمیں اس باخبر رکھتا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں ترجمہ انسانی زندگی سے بہت قریبی تعلق رکھتا ہے۔
ترجمہ بجائے خود ایک مستقل فن ہے۔ ہر زبان میں ترجموں کے ذریعہ نئے الفاظ و اصطلاحات، محاوروں اور کہاوتوں کا اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح ترجمہ کی راہ سے اس زبان کی لغت اور طرزِ ادا میں نئے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے دوافراد یا دو گروہوں میں تبادلۂ خیال کا واحد ذریعہ ترجمہ ہی ہے۔ اسی لئے بنیادی طور پر ترجمہ آسان، رواں اور عام فہم ہونا چاہئے تاکہ اظہارِ خیال اور تبادلۂ خیالات کا اصل مقصد حاصل ہو۔ یہ صحیح ہے کہ ترجمہ میں اصل کی ساری خوبیاں نہیں پیدا کی جاسکتیں لیکن بہت سی خوبیاں ضرور سموئی جاسکتی ہیں۔
ہر زبان اپنے ملک کے جغرافیائی، تہذیبی اور تمدنی معلومات کا سرچشمہ ہوتی ہے اورہر زبان کے اپنے اپنے انداز بھی ہوا کرتے ہیں۔جو بات ایک زبان میں ہوتی ہے ، وہ دوسری زبا ن میں نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے ترجمہ کا فن قدیم ہونے کے باوجود اس کے مقررہ اُصول ایسے نہیں بنائے جاسکتے ، جن پر سب یکساں طورپر عمل کرسکیں۔ اس کے باوجود بھی چند باتیں ایسی ہیں جن پر عمل کرنے سے ترجمہ کرنا آسان بھی ہوسکتا ہے اور ترجمہ کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پہلی اہم بات یہ ہے کہ ایک زبان سے اگر دوسری زبان میں ترجمہ کرنا مقصود ہوتو اُن دونوں زبانوں کے ادب، ادبی روایات اور تہذیبی اور تمدنی حالات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جس مضمون یا موضوع کا ترجمہ کرنا ہو اس پر بھی اچھی مہارت ہونی چاہئے۔
ترجمہ کرنے کے بعد، اپنا ترجمہ اور اصل مضمون کا مقابلہ کرکے دیکھنا ہے کہ اصل مدعا ترجمہ میں پوری طرح ادا ہوا ہے یا نہیں۔ کیوں کہ کامیاب ترجمہ وہ ہے جو اصل کے مطابق ہو اور معنی و مفہوم میں کوئی فرق نہ پیدا ہو۔
زبان کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دونوں زبانوں کے روزمرہ، محاوروں اور عملی وفنی اصطلاحات سے بھی واقف ہونا ضروری ہے اس لئے کہ ہر زبان کا روز مرہ، محاورہ دوسری زبان سے مختلف ہوتا ہے۔اگر اس فرق کو ترجمہ میں ملحوظ نہ رکھا جائے تو غلطیوں کا امکان ہے۔
ترجمہ میں دونوں زبانوں یعنی ا پنی اور دوسری زبان کے مزاج سے واقفیت ضروری ہے اس لئے کہ ہر زبان کا مزاج اور طرزِ اظہار الگ الگ ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت ایسے جملے لکھنے چاہئیں جو عام فہم، سادہ اور سلیس ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو اس کے محضوص طرزِ اظہار کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسے موقع پر صرف مطلب کا ترجمہ کرنا ہوتا ہے۔
ترجمہ میں دونوں زبانوں کے جملوں کی ساخت میں مماثلت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔ کیوں کہ اکثر اوقات ایک زبان میں جچے تلے الفاظ، محاورے، اصطلاحیں اور ترکیبیں موجود رہتی ہیں اور دوسری زبان میں نہیں ہوتیں۔ ایسی صورت میں ایک مترجم کو موقع اور محل کے لحاظ سے، دونوں زبانوں کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے مفہوم آسانی سے سمجھ میں آسکے اور اصل زبان میں جملہ کا جو انداز ہوگا وہی انداز ترجمہ کی زبان میں بھی قائم رہے۔
کامیاب مترجم وہی ہے جو سلیس، بامحاورہ اور عام فہم زبان میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہواور دونوں زبانوں میں مماثلت اور ہم آہنگی بھی پیدا کرسکتاہو۔ یہ تما م باتیں ایسی اہم اور ناگزیر ہیں کہ ان کے بغیر ترجمہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ان کی اہمیت ایسی ہے کہ ہم ان کو ترجمہ کے اصول بھی کہہ سکتے ہیں۔
1) India, also known as Bharath, is our country and we are all its citizens. Indians belong to different religions, caste and communities. we speak different languages and we are of different cultures. But we are united under one falg.
We are a peace loving nation and belive in a policy of non-interference in the affairs of other countries. So we maintain good relationships with all the countries in the world. Our hospitality has gained popularity with all visitors from other lands. Many foreigners want to learn about the teaching of the great masters of India. We are very proud of our country and its great heritage of wisdom and knowledge.
۱۔ترجمہ: ہندوستان جوبھارت کے نام سے بھی مشہور ہے، ہمارا ملک ہے اور ہم سب اس کے شہری ہیں۔ ہندوستانی مختلف مذاہب، طبقوں اور فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ہندوستانی مختلف زبانیں بولتے ہیں اور ہماری تہذیبیں الگ الگ ہیں۔ اس کے باوجود ہم سب ایک جھنڈے تلے متحد ہیں۔
ہم سب امن پسند ہیں اور دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں عدمِ مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی بِنا پر دنیا کے تمام ممالک سے ہمارے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں۔ بیرونی سیاحوں کے ساتھ ہماری خاطر ومدارات نے بہت شہرت حاصل کی ہے۔ بہت سے غیر ملکی حضرات ہندوستان کے مشاہیر کی تعلیمات سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک پر اور یہاں کی دانائی اور حکمت کے ورثہ پر ناز ہے۔
2) Transport is an essential means to move from one place to another. We need transport facilities for travelling, attending offices, carring goods and sending goods go different places. Different modes of transport have come into use now.
We use buses, cars, vans, trains and aeroplanes for our travelling. Aeroplanes are the fastest medium of transport. We have also now with us fast moving trains. Buses of ordinary and deluxe types are running on the roads. Perfects roads have been laid throughout India. Besides these autorickshaws, ,mopeds and motorbikes of different types are on the roads for helping the public. It is not an exaggeration to say that Transport system has been improved a lot.

۲) سواریاں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ سفر کرنے، دفتروں میں حاضر ہونے، اسباب لے جانے اور مختلف جگہوں تک سامان پہنچانے کے لئے ہمیں سواریوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔آج کل مختلف قسم کی سواریاں کا استعمال عام ہوچکا ہے۔
سفر کے لئے ہم بسوں، کاروں ، وین، ریلوں اور ہوائی جہازوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز ایک نہایت ہی تیز رفتار 
سواری ہے۔ آج کل تیز رفتار ریلیں بھی موجود ہیں۔ معمولی اور آرام دہ قسم کی بسیں بھی سٹرکوں پر دوڑتی ہیں۔ ہندوستان بھی میں عمدہ سڑکوں کا جال بچھایاگیا ہے۔ مذکورہ بالاسواریوں کے علاوہ آٹورکشا اور مختلف قسم کی موٹر سیکلیں بھی عوام کی سہولت اور آرام کی خاطر دوڑ رہی ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج نقل و حمل کے ذرائع نے بڑی حد تک ترقی کی ہے۔
3) Trade between different countries is not a new phenomenon. It can be traced back to two thousand years. India had its trade contact with Arabia, Rome, Greece and china. Arabs and Greeks used to sail with the help of their large vessels. They brought their goods to India and in return they used to buy rare items which had good demand in their own countries. India right from the olden days, was a centre of attraction to many foreign countries. Some of the items like species and cashewnuts were very famous. Similary Arabs had a good demand for their horses in India.
۳) دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کوئی نئی اور عجیب و غریب چیز نہیں ہے۔ اسے تقریباً دو ہزار سال کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات عرب، روم، یونان اور چین کے ساتھ رہے۔ عرب اور روم کے تاجر اپنے تجارتی جہازوں کے ذریعہ سمندر کا سفر کرتے تھے۔ وہ اپنے تجارتی اشیاء ہندوستان لاتے اور اس کے بدلے یہاں کی وہ ساری قیمتی چیزیں خرید کر اپنے ساتھ لے جاتے، جن کی ان کے ہاں بڑی مانگ تھی۔ ہندوستان زمانۂ قدیم مشہور تھیں۔ اسی طرح ہندوستان میں عربی گھوڑوں کی بڑی مانگ تھی۔
4) Library is a place where different kinds of book are kept. It is really a storehouse of knowledge and wisdom. Every school and college has its library. Usually reading rooms are attached to these libraries. We can read newspapers, periodicals and magazines there.
Public libraries are found in all towns and big villages. Even costly books are kept there for the public use. In a library there are books on travel, science, engineering, history etc. There are also novels and story books. We may go to the libraries and read books. We may take them house by becoming member of the libraries.
Libraries are a great blessing to the people. They develope the habits of reading. This reading gives amusements and pleasure. It also enriches our knowledge.
۴) لائبریری ایک ایسی جگہ ہے، جہاں مختلف قسم کی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔ وہ دراصل معلومات اور حکمت اور دانائی کا ایک مخزن ہے۔ ہر اسکول اور کالج کا اپنی لائبریری ہوتی ہے۔ عام طورپر مطالعہ کا کمرہ بھی اسی سے ملحق ہوتا ہے۔ اخبارات، رسائل اور جرائد ہم ان میں مطالعہ کرسکتے ہیں۔
تمام شہروں اور قصبات میں لائبریریاں ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سی قیمتی کتابیں بھی عوام کے مطالعہ کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ سیر و سیاحت، سائنس، انجنیرنگ اور تاریخ وغیرہ موضوعات سے متعلق کتابیں یہاں ہوتی ہیں۔ ناول اور دوسرے قصے کہانیوں کی کتابیں بھی یہاں موجود ہوتی ہیں۔ لائبریری میں ہم ان کتابوں سے استفادہ کرسکتے ہیں اور ممبر بن کر کتابیں اپنے مکان بھی لے جاسکتے ہیں۔
لائبریری معلومات کا ایک مخزن ہے۔ اس کے ذریعے ہمارے اندر مطالعہ کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ ہمارے لئے مسرت اور تفنن طبع کا سبب ہے۔ اسی کے ساتھ ہماری معلومات میں بھی خطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
5) In a democratic government people enjoy a great deal of liberty. But liberty in democracy does not mean a license to do anything. People should not misuse the rights and duties. They can criticise the Government. But they should not create lawlessness in the country.
Our great leaders stressed the need of discipline among the citizens. Discipline and democracy go hand in hand together. Abraham Lincon defined democracy as the government of the people, by the people and for the people. Therefore in a democratic government people are all powerful.
۵) جمہوری طرزِ حکومت میں عوام کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن جمہوریت میںآزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ من مانی کرے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ حقوق و فرائض کا غلط استعمال نہ کرے، حکومت پر تنقید کرنے انہیں حق حاصل ہے لیکن ملک میں غیر آئینی فضا قائم نہ کرے۔
ہمارے عظیم سیاسی رہنماؤں نے شہریوں میں تنظیم قائم کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ تنظیم اور جمہوریت دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ابراہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ وہ ایک ایسی طرزِحکومت ہے جو عوام کی ہے، عوام کی طرف سے ہے اور عوام کی خاطر ہے۔ لہٰذا جمہوری طرزِ حکومت میں اصل قوت عوام کی ہے۔